کراچی اور ملک کے اکثر علاقوں میں ایسا ہوتا ہے کہ اکثر دکاندار اپنی دکانوں کے سامنے عام راستوں میں کرسیاں وغیرہ رکھتے ہیں،جن میں ان کا گاہک بیٹھتا ہے اور ان کے اس فعل کی وجہ سے عام لوگوں کو بہت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوتی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا ان کا عام شاہراہوں اورعام راستوں میں اپنے گاہک کے لیے کرسی لگانا جائز ہے؟
نوٹ: اس مسئلے میں ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ جہاں جہاں مساجد کے ساتھ یہ دکانیں ہوتی ہیں، وہاں روزانہ نمازی حضرات کے آنے جانے میں شدید مشکلات ہوتی ہیں اور کبھی کبھار فٹ پاتھ چھوڑ کر روڈ سے گزرنے پرکار یا اسکوٹر کے ذریعے حادثہ اور جان جانے کا بھی خطرہ ہو جاتا ہے۔
واضح رہے کہ دوکان داروں کادکان کے باہر عام شاہراہوں اور عام راستوں میں کرسیاں وغیرہ رکھنا، جس کی وجہ سے عام لوگ پریشانی اور تنگی میں مبتلاہوں اور ٹریفک کی روانی بھی متاثرہوتی ہو، نیز نمازیوں کی آمدورفت میں خلل واقع ہو تا ہو تو شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے، عام راستے اور شاہراہیں عام لوگوں اور ٹریفک کے گزرنے کے لیے ہو تے ہیں، لہذا دوکان کی حدود سے باہر عام شاہراہوں اور عام راستوں میں کرسیاں لگانے سے اجتناب کرنا لازم ہے،نیز اس کی وجہ سے اگر راستے تنگ ہوجاتے ہوں ،جس کی بنا پر راہ چلنے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ مزید سخت گناہ کی بات ہے؛ کیوں کہ اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچنے کی وجہ سے حقوق العباد کی خلاف ورزی بھی لازم آرہی ہے، بخاری شریف کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے راستوں میں بیٹھنے کی اجازت مانگی تو آپ ﷺ نے اس شرط پر اجازت دی کہ راستے کا حق ادا کیا جائے،جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ راستے کا حق کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ راستے کا حق یہ ہے کہ راستے میں نظروں کی حفاظت کی جائے، کسی کو تکلیف دینے سے اجتناب کیا جائے، سلام کا جواب دیا جائے، نیکی کا حکم کیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔
صحيح البخاری میں ہے:
"حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا أبو عمر حفص بن ميسرة، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إياكم والجلوس على الطرقات»، فقالوا: ما لنا بد، إنما هي مجالسنا نتحدث فيها، قال: «فإذا أبيتم إلا المجالس، فأعطوا الطريق حقها»، قالوا: وما حق الطريق؟ قال: «غض البصر، وكف الأذى، ورد السلام، وأمر بالمعروف، ونهي عن المنكر»"
(كتاب المظالم،3/ 132، ط:دار طوق النجاة : بيروت)
منحۃ السلوک فی شرح تحفۃ الملوک میں ہے:
"(ويباح الجلوس في الطريق للبيع إذا كان واسعاً، لا يتضرر الناس به) أي بجلوسه (ولو كان الطريق ضيقاً: لا يجوز) لأن المسلمين يتضررون بذلك. وقال عليه السلام: "لا ضرر ولا ضرار في الإسلام."
(كتاب الكراهية، فروع، ج:1، ص:428، ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے :
"وطريق العامة ما لايحصى قومه أو ما تركه للمرور، قوم بنوا دورا في أرض غير مملوكة فهي باقية على ملك العامة، وهذا مختار شيخ الإسلام، والأول مختار الإمام الحلواني، كما في العمادي، قهستاني... (قوله:فإن ضر لم يحل ) كان عليه أن يقول: فإن ضر أو منع لم يحل ا هـ وفي القهستاني: ويحل له الانتفاع بها وإن منع عنه، كما في الكرماني، وقال الطحاوي: إنه لو منع عنه لايباح له الإحداث ويأثم بالانتفاع والترك كما في الذخيرة."
(ج:6،ص:592،ط:سعید)
المحيط البرهانی میں ہے:
"وسئل أبو القاسم عمن يبيع ويشتري في الطريق قال: إن كان الطريق واسعاً ولا يكون في قعوده ضرر للناس فلا بأس، وعن أبي عبد الله القلانسي أنه كان لا يرى بالشراء منه بأساً وإن كان بالناس ضرر في قعوده، والصحيح هو الأول؛ لأنه إذا علم أنه لا يشتري منه لا يبيع على الطريق فكان هذا إعانة له على المعصية وقد قال الله تعالى: {ولا تعاونوا على الاثم والعدوان} وبعض مشايخنا قالوا: لاتجوز له العقود على الطريق وإن لم يكن للناس في قعوده ضرر ويصير بالقعود على الطريق فاسقاً؛ لأن الطريق ما اتخذ للجلوس فيه إنما اتخذ للمرور فيه."
(الفصل الخامس والعشرون: ج:7، ص: 140، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100303
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن