میں کاسمیٹکس اور گارمنٹس کا کاروبار کرتا ہوں،میرے کام کا طریقہ کار یہ ہے کہ میں ہول سیل مارکیٹ سےمال خرید کر آگے دکان داروں کو ادھار قسطوں پر فروخت کرتا ہوں مثلاً ایک لاکھ کامال خرید کرلاتا ہوں پھر دکان داروں کوچھ ماہ یاآٹھ ماہ کے لیے قسطوں پر ادھار یومیہ قسط پر (روزانہ کی قسط ہزار یا پانچ سومقرر ہوتی ہے)ایک لاکھ چالیس ہزار روپے میں فروخت کردیتا ہوں،اور کبھی میں خریدنے والے دکان دار کو اپنا وکیل بناتا ہوں کہ وہ میری طرف سے ہول سیل مارکیٹ سے خریدے پھر میں اس چیز کو اپنے قبضے اور کسٹڈی میں لینے کے بعد اس دکان دار کو فروخت کرتا ہوں(ادھار مال دینے کی وجہ سے دکان دار مجھ سے مال خریدتے ہیں ،براہ راست ہول سیلر سے نہیں خریدتے)نیزاگر کوئی دکان دار قسط دینے میں مقررہ مدت سے کچھ تاخیر بھی کرتا ہے تو اس سے اضافی رقم نہیں لیتا، اب سوال یہ ہے کہ میرا اس طرح کاروبار کرنا جائز ہے یا ناجائز ؟
صورتِ مسئولہ میں سائل کاہول سیل مارکیٹ سے مال خرید کر اوراپنے قبضہ میں لےکر آگے دکان داروں کو ادھار قسطوں پریومیہ قسط کے حساب سے فروخت کرنا جائز ہے بشر ط یہ کہ قسط کی مدت متعین ہو یعنی یہ معلوم کہ کس مہینہ یا تاریخ تک مکمل قسطیں ادا کردی جائیں گی،اورقسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں کوئی اضافی رقم(جرمانہ)نہ لی جائے،نیز اسی طرح سائل کا دکان دار کو خریداری کا وکیل بنانا پھر دکان دار(خریداری کا وکیل) کے خریدنے کے بعد سائل کا اس چیز کو اپنے قبضہ میں لے کر اسی دکان دار(وکیل) کو فروخت کرنا جائز ہے،تاہم اگر سائل(موکل)نے دکان دار(خریداری کاوکیل) سے وہ چیز اپنے قبضہ میں نہیں لی،بلکہ اسی کے قبضہ میں رہتے ہوئے اس کو بیچ دی تو یہ صورت جائز نہیں ہے۔
مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے :
"البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط".
( الكتاب الاول في البيوع، الفصل الثانی فی بیان المسائل المتعلقۃ فی البیع بالتاجیل والنسیئۃ، ص:50، ط:نور محمد)
فتاوی شامی میں ہے:
"والأصل أن القبضين إذا تجانسا ناب أحدهما عن الآخر، وإذا تغايرا ناب الأعلى عن الأدنى لا عكسه
(قوله عن الآخر) كما إذا كان عنده وديعة فأعارها صاحبها له فإن كلا منهما قبض أمانة فناب أحدهما عن الآخر (قوله عن الأدنى) فناب قبض المغصوب والمبيع فاسدا عن قبض المبيع الصحيح ولا ينوب قبض الأمانة عنه."
(كتاب الهبة، ج:5، ص:694، ط:سعيد)
تحفة الفقهاء میں ہے:
ولو باع الراهن المرهون من المرتهن وهو في حبسه لا يصير قابضاً بنفس الشراء ما لم يجدد القبض بأن يمكن من قبضه حقيقة بأن كان حاضراً في مجلس الشراء أو يذهب إلى بيته ويتمكن من قبضه؛ لأن قبض الرهن قبض أمانة، وإنما يسقط الدين بهلاكه لا بكونه مضموناً، ولكن بمعنى آخر عرف في موضعه، وقبض الأمانة لا ينوب عن قبض الشراء، وكذلك إذا كان في يده أمانة مثل الوديعة والعارية والإجارة ونحوها لم يدخل في ضمان المشتري إلا أن يتمكن من قبض جديد؛ لأن قبض الأمانة لا ينوب عن قبض الضمان".
(کتاب البیوع، حکم البیع، ج:2، ص:43، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101255
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن