ہم چپلوں کا کام کرتے ہیں اور مختلف دکانوں کو مال فراہم کرتے ہیں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دکان میں موجود سیلز مین( دکان کے نظام کو سنبھالنے اور چلانے والے) ہمارا مال نہیں لیتے ،غلط بیانی سے کام لیتے ہیں کہ آپ کا مال ہمارے پاس موجود ہے، مزید مال کی ضرورت نہیں ،حالانکہ ان کے پاس موجود نہیں ہوتا ، یہ سب کچھ اس لیے کرتے ہیں تاکہ ہم ان کو الگ سے کچھ پیسے دے دیں جب کہ مال دینے والے کی طرف سے ان کو پیسے ملتے ہیں،جب ان کو پیسے ملتے ہیں تو پھر وہ زیادہ سے زیادہ مال کا آرڈر دیتے ہیں؛ کیا ان کو اس طرح کے پیسے دینا درست ہے؟
وضاحت: یہ پیسے سیلز مین اپنے لیے لیتے ہیں، اصل دکاندار کو اس کا علم نہیں ہوتا، دوسرا سوال یہ ہے کہ سیلز مین عید کے موقع پہ عیدی کا مطالبہ کرتے ہیں اگر آپ ان کو عیدی نہ دیں تو پھر مال روکتے ہیں، آرڈر وغیرہ نہیں دیتے تو کیا ہم کو عیدی دینا جائز ہے؟
دوکاندار کے ملازم(سیلزمین) کے لیے اپنے مالک (دکان دار)کے علم میں لائے بغیر کسی سے خفیہ کمیشن وصول کرنا ناجائز ہے؛ کیوں کہ ملازم اپنے مالک کی طرف سے وکیل ہے اور وکیل امین (امانت دار) ہوتا ہے، جس کے ذمے تمام معاملات کی آگاہی اپنے مؤکل کو دینا ہوتی ہے، نیز جب کہ ملازم اپنے عمل کا معاوضہ اپنی اجرت کی صورت میں بھی لیتا ہے تو اس اجرت کے علاوہ اس طرح خفیہ طور پر ملازم کا کسی عنوان سے کمیشن وصول کرنا رشوت ہے ،اور رشوت کا لین دین شرعا ناجائز اورحرام ہے؛لہذا سائل کے لیے اپنے مال کا آرڈر حاصل کرنے کے لئے دوکان کے سیلزمین کو کچھ رقم دینا کسی بھی عنوان سے شرعا ناجائز ہے۔
نیز عیدی دینا فی نفسہ درست ہے، اس کی حیثیت تحفہ اورہدیہ کی ہے،اس سوچ سےبچوں کو ، ماتحتوں کو ، ملازموں کوعیدی دینا کہ وہ خوش ہوں گے نہ صرف جائز بلکہ کارِثواب ہے،لیکن اگر مقصد وہی ہے دینے کا کہ مال کا آرڈر نہ روکیں تو اس کا بھی وہی حکم ہوگا جو ماقبل میں ذکر ہوا ،عنوا ن بدلنے سے حکم میں فرق نہیں آئے گا۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(المال الذي قبضه الوكيل بالبيع والشراء وإيفاء الدين واستيفائه وقبض العين من جهة الوكالة في حكم الوديعة في يده فإذا تلف بلا تعد ولا تقصير لا يلزم الضمان. والمال الذي في يد الرسول من جهة الرسالة أيضا في حكم الوديعة) . ضابط: الوكيل أمين على المال الذي في يده كالمستودع."
(الكتاب الحادي عشر الوكالة، الباب الثالث، الفصل الأول، المادة :1463، 561/3، ط:دارالجيل)
معارف القرآن میں تفسیر بحر محیط کے حوالہ سے درج ہے :
’’جس کام کا کرنا اس کے ذمہ واجب ہے اس کے کرنے پر معاوضہ لینا یا جس کام کا چھوڑنا اس کے ذمہ لازم ہے اس کے کرنے پر معاوضہ لینا رشوت ہے‘‘۔
(ج۵ / ص:۳۹۷، ط: ادارۃ المعارف کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102760
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن