بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوکاندار کا رقم وصول کرنے کے بعد مبیع نہ دینے کا حکم


سوال

ہم نے چار سال پہلے ایک دکان سے دو گھرکے  لیے لوہا  لیا تھا، ہم نے اس دکاندار کے بیٹے کو پیسے دیے تھے،  پھر  اس کا بیٹا کچھ دن بعد فوت ہو گیا تھا،  ہم کچھ دن بعد اس دکاندار کے پاس آئے تو اس نے مانا کہ جی آپ کی رقم  امانت ہے ، آپ جب چاہیں لوہا اٹھاسکتے ہیں، ہم نے ایک گھر کے لیے لوہا اٹھا یا اور ایک گھر کا نہیں،  اب ہم اس دکاندار پاس آئے تو وہ ہمیں نام سے پہچانتا بھی ہے،  وہ اب کہہ رہا کہ میں آپ کو جانتا ہی نہیں ہوں، تو اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ رہنمائی فرمائیں۔

نوٹ: ۔ ہمارے پاس ان کے کچھ بل اور وزن کی رسیدیں بھی موجود ہیں اور اس  کے دستخط بھی  ہیں اور ان کے بیٹے کی دستخط بھی  موجود ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ دوکاندار کے مرحوم بیٹے کو لوہا خریدنے پر رقم کی ادائیگی  کی ہے، جس کی رسیدیں وغیرہ بھی موجود ہیں تو مذکورہ دوکاندار پر لازم ہے کہ اپنی جاری کردہ رسید سے اگر خریداری ثابت ہوجاتی ہے تو خریدا گیا لوہا خریداروں کو دے دے، مزید ٹال مٹول کرنا اور بغیر کسی شرعی وجہ کے لوہا اپنے پاس روکے رکھنا جائز نہیں ہے، ایسا کرنا شرعاً ظلم اور ناجائز ہے،  اور اگر خریدار کے پاس خریداری کا کوئی ثبوت نہیں ہو تو دوکاندار کا محض انکار کافی نہیں، بلکہ حلف اٹھانا ضروری ہے کہ وہ حلف اٹھائے کہ میرے علم کے مطابق اس کی قیمت مجھے یا میرے بیٹے کو ادا نہیں کی،  اسی صورت میں سائل کا دعوی  کالعدم شمار ہوگا ۔

مسند احمد بن حنبل میں ہے: 

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: کنت آخذاً بزمام ناقة رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه و سلم في أوسط أیام التشریق أذود عنه الناس، فقال: یا أیها الناس! ألا لاتظلموا ، ألا لاتظلموا، ألا لاتظلموا، إنه لایحل مال امرئ إلا بطیب نفس منه".

(حدیث عم أبي حرة الرقاشي، رقم الحدیث: 20695، ج34، ص:299، ط:مؤسسة الرسالة) 

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"في البيع بالثمن الحال أعني غير المؤجل للبائع أن يحبس المبيع إلى أن يؤدي المشتري جميع الثمن".

(‌‌الکتاب الأول في البیوع،الباب الخامس: في بيان المسائل المتعلقة بالتسليم والتسلم، الفصل الثاني: في المواد المتعلقة بحبس المبيع، رقم المادّۃ:278، ط:مکتبہ رشدیہ)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"(عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده رضي الله عنهم) ; أي: ابن عمرو (أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه. رواه الترمذي) : ورواه البيهقي وابن عساكر عنه بلفظ: " «البينة على المدعى واليمين على من أنكر إلا في القسامة» ".

(کتاب الامارۃ، باب الاقضیۃ، ج:6، ص:2445، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں