بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکاندار کا پیکج میں مقررہ رقم سے زیادہ رقم لینے كا حکم


سوال

 آج کل نیٹ اور کال وغیرہ کے پیکج لگتے ہیں تو دکاندار پیکج لگاتے وقت دس یا کچھ روپے کاٹتا ہے جب کہ بعض بڑے پیکج لگانے میں کمپنی دکاندار کو کمیشن بھی دیتی ہے جبکہ بعض میں کمیشن نہیں ملتا۔آج کل سب دکاندار پٕکیج لگاتے وقت پیسے کاٹتے ہے مثلا پیکج150 کا ہوگا تو دکاندار160 لےگا،ہر دکاندار اس میں مبتلا ہے۔

کیا یہ سود میں آئے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب کہ سائل کو کمپنی کی طرف سے بیلنس ڈالنے اور پیکج کرنے پر طے شدہ معاہد ہ کے تحت کمیشن یا اجرت دی جاتی ہے،جب کہ کمپنی کی طرف سے اضافی رقم لینے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تو اس صورت میں دکاندار کا پیکج کرتے وقت لوگوں سے جتنی رقم میں پیکج ہوتاہے، اس سے زائد رقم لینا شرعاً ناجائز ہے،کیوں کہ اس صورت میں دوسرے کا مال ناحق لیا جارہا ہے۔

نیزمذکورہ رقم سود نہیں کہلائےگی، کیوں کہ سود کہتے ہیں کہ کسی شخص کو اس شرط کے ساتھ پیسے دینا کہ واپسی کے وقت کچھ اضافی رقم بھی ساتھ دینی ہوگی تو یہ زائد رقم سود ہوگی۔البتہ اس کو ناحق لینا کہا جائے گا۔

قواعد الفقہ میں ہے:

"لا یجوز التصرف فی ملک الغیر  بغیر اذنہ ۔"

(قواعد الفقہ ،ج:1، ص:110،ط:صدف پبلشرز)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔"

(ردالمحتار علی الدرالمختار ، باب التعزیر، ج:4، ص:61 ،ط:سعید)

حدیث شریف میں ہے:

"ألا لاتظلموا ألالايحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه۔"

(مشکوٰۃ المصابیح ، باب الغصب والعاریۃ،  ج:ص:261، ط:رحمانیہ) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307101970

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں