بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکاندار کا موبائل سم کے پیکچ ،ایزی پیسہ اور جاز کیش میں کسٹمر سے کمیشن لینا


سوال

 آج کل لوگ بل موبائلوں کی دکانوں میں جمع کرتے ہیں، کمپنی والے ان کو کچھ پیسے دیتے ہیں، اس کہ علاوہ وہ بل جمع کرنے والے سے بھی ہر بل پر ۱۰ روپے لیتے ہیں، تو کیا کمپنی والے پیسوں کہ ساتھ یہ ۱۰ روپے جائز ہیں یا نہیں؟ اور  اسی  طرح ایزی پیسہ جب کسی کو موبائل کی دکان والا کرتا ہے تو کمپنی والے ۱۰۰۰ پر ۴ روپے دیتے ہیں اور موبائل کی دکان والا ایزی پیسہ کرنے والے گاہک سے بھی ۱۰ یا ۲۰ روپے لیتے ہیں ،تو یہ ۱۰ یا ۲۰ روپے لینا جائز ہے کہ نہیں؟ اور اسی طرح پیکچ جب کوئی کرتا ہے تو کمپنی والے بھی کچھ روپے دیتے ہیں اور وہ پکیچ کمپنی والے اگر مثلا ۱۳۰ کا دیتے ہیں تو یہ دکان والا وہ پیکچ ۱۴۰ کا دیتا ہے تو یہ ۱۰ روپے لینا جائز ہیں کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  موبائل  سم کے  پیکچ  ،  ایزی پیسہ اور  جازکیش وغیرہ کا کام کرنے والوں کو    کمپنی کی طرف سے  اجرت / کمیشن ملتا ہے اور کسٹمر سے مزید چارجز لینے پر پابندی ہوتی  ہے ، لہذا  کمپنی کے قوانین کا لحاظ کرتے ہوئے کسٹمر سے اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے۔

مسئولہ صورت کی نظیر   ’’امداد الفتاوی‘‘  میں ہے:

"اسٹامپ کو اس کی مقررہ قیمت سے زائد پر فروخت کرنا

سوال (۱۷۴۶) :قدیم۳ / ۱۱۳-لیسنس دار جو اسٹامپ خزانہ سے بیچنے کے لیے  لاتے  ہیں، ان کو  ایک روپے تین پیسے کمیشن کے طور پر دیے  جاتے ہیں یعنی ایک روپے کا اسٹامپ سوا پندرہ آنہ پر مِلتا ہے، اور لیسنس داروں کو یہ ہدایت قانوناً ہوتی ہے کہ وہ ایک روپیہ سے زائد میں اس اسٹامپ کو نہ بیچیں ، اب قابلِ دریافت یہ بات ہے کہ اگر یہ شخص ایک روپے والے اسٹامپ کو مثلاً ایک روپے یا سترہ آنے میں فروخت کرے تو شرعاً جائز ہوگا یا ناجائز؟

الجواب: حقیقت میں یہ بیع نہیں ہے، بلکہ معاملات کے طے کرنے کے لیے جو عملہ درکار ہے اس عملہ کے مصارف اہلِ معاملات سے بدیں صورت  لیے جاتے ہیں کہ ان ہی کے نفع کے لیے اس عملہ کی ضرورت پڑی؛ اس لیے اس کے مصارف کا ذمہ دار ان ہی کو بنانا چاہیے اور لیسنس دار بھی مصارف پیشگی داخِل کر کے اہلِ معاملہ سے وصول کرنے کی اجازت حاصِل کر لیتا ہے، اور اس تعجیلِ ایفاء کے صلہ میں اس کو کمیشن ملتا ہے، پس یہ شخص عدالت کا وکیل ہے، مبیع کا ثمن لینے والا نہیں ، اس  لیے مؤکل کے خلاف کر کے زائد وصول کرنا حرام ہوگا۔  فقط۔۲۴ ؍جمادی الاولیٰ۱۳۲۹؁ ھ (تتمہ اولیٰ ص۱۵۹)

(امداد الفتاوی جدید،۷ /باب: جائز و ناجائز یا مکروہ معاملات بیع،۶ / ۵۱۴، ط: زکریا بک ڈپو انڈیا)

بدائع الصنائع میں ہے:

"الوكيل بالبيع فالتوكيل بالبيع لا يخلو إما أن يكون مطلقا، وإما أن يكون مقيدا، فإن كان مقيدا يراعى فيه القيد بالإجماع."

(فصل فی بیان حکم التوکیل، ج:6، ص:27، ط:رشیدیه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وجملة الأمر أن كل ما قيد به الموكل إن مفيدا من كل وجه يلزم رعايته أكده بالنفي أو لا كبعه بخيار فباعه بدونه، نظيره الوديعة إن مفيدا ك " احفظ في هذه الدار " تتعين، وإن لم يقل لا تحفظ إلا في هذه الدار لتفاوت الحرز وإن لا يفد أصلا لا يجب مراعاته كبعه بالنسيئة فباعه بنقد يجوز، وإن مفيدا من وجه يجب مراعاته إن أكده بالنفي وإن لم يؤكده به لا يجب."

(كتاب الوكالة، ج:5، ص:523، ط:سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

ـ"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي."

(.1/264مادۃ: 97، ط؛ رشیدية(

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100183

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں