بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان دار کا گاہک کسی اور دکان میں بھیجنے کا کمیشن لینے کا حکم


سوال

میں دکان پر کام کر رہا ہوں،  اور کچھ سامان نہ ہو نے کی صورت میں میں کسٹمرز کو دوسری دکان پر بھیجتا ہوں اور میں دکاندار سے کسٹمرز بھیجنے کی بنیاد پر کمیشن لیتاہوں اور دکاندار کسٹمر سےاصل قیمت سےزیادہ وصول کرکے مجھے اس میں سےکمیشن نکال کردیتاہے جو کہ کسٹمر کو معلوم نہیں  ہوتی،  تو پھر یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب

مذکور ہ صورت میں  آپ کا اپنی دکان پر بیٹھے بیٹھےاپنی دکان میں مطلوبہ مال نہ ہونے پر خریدار سے عذر کرنا اور دوسری دکان کی راہ نمائی کرنا ایسا کام نہیں کہ جس پر دوسری دکان والے سے کمیشن لیا جائے ،کیوں کہ کمیشن محنت کرنے کی اجرت ہوتی ہے، اس کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا کوئی کام کیا جائے جس کے بدلے میں اجرت دی جائے،اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے بغیر کسی محنت کے خریدار کو بھیج دینا ایسا کوئی کام نہیں جس کی اجرت دی جائے، اور اوقاتِ ملازمت میں کوئی اور کام کر کے دوسرے سے  اس کا کمیشن لینا بھی درست نہیں ہے، نیز اس معاملہ میں کسٹمر کے ساتھ ایک طرح کا دھوکہ بھی ہےکہ راہنمائی تو کسٹمر کی مخلصانہ صورت  میں  کی جب کہ حقیقت میں یہ مخلصانہ راہ نمائی نہیں بلکہ اپنے خفیہ مفاد کا حصول مقصد ہے، اگر کسٹمر کو آگاہی ہوتی کہ یہ شخص اپنے کمیشن کے حصول کے لیے مخصوص دکان کا پتہ بتا رہا ہے تو یہ کسٹمر اس پر اعتماد کرنے کے بجائے خود ہی دکان تلاش کر لیتا۔

"الدر المختار مع رد المحتار "میں ہے:

"إن دلني على كذا فله كذا فدله فله أجر مثله إن مشى لأجله.

(قوله إن دلني إلخ) عبارة الأشباه إن دللتني. وفي البزازية والولوالجية: رجل ضل له شيء فقال: من دلني على كذا فهو على وجهين: إن قال ذلك على سبيل العموم بأن قال: من دلني فالإجارة باطلة؛ لأن ‌الدلالة ‌والإشارة ليست بعمل يستحق به الأجر، وإن قال على سبيل الخصوص بأن قال لرجل بعينه: إن دللتني على كذا فلك كذا إن مشى له فدله فله أجر المثل للمشي لأجله؛ لأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل، وإن دله بغير مشي فهو والأول سواء."

(كتاب الإجارة،مطلب ضل له شيء فقال من دلني عليه فله كذا، ج:6، ص:95، ط:سعيد)

"غمز عيون البصائر"میں ہے:

"أما لو ‌دله ‌بالكلام فلا شيء له هكذا روي عن أبي يوسف."

(الفن الثاني، كتاب الإجارات، ج:3، ص:129، ط:دار الكتب العلمية)

"رد المحتار "میں ہے:

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة ‌السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407101496

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں