بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شعبان 1446ھ 08 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

دکان ادھارفروخت کرنے کے بعد رقم کی وصولی تک کرایہ وصول کرنا


سوال

ایک شخص ایک دکان دس کروڑ نقد میں خرید کر دوسرے شخص کو بارہ کروڑ میں ایک سال کی مدت ادائیگی  پر فروخت کرتا ہے، اور خریدار دو یا تین کروڑ  بوقت بیع ادا بھی کر دیتا ہے اور باقی نو یا دس کروڑ کی ادائیگی کے لئے ایک سال کی مدت بائع اور مشتری کے درمیان طے پاتی ہے، اور اس مدت کے دوران مشتری ہرماہ بائع کو چار لاکھ روپیہ دکان کے  کرایہ کی مد میں ادا کرے گا، جس کا بقایہ ادائیگی سے کوئی تعلق نہیں  ہوگا،  کیا اس طرح کا سودا از روئے شریعت جائز ہے؟ براہ مہربانی جواب عنایت فرما کر عندااللہ ماجور ہوں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص(بائع)  اپنی دکان باقاعدہ سودا کرکے ایک سال کی مدت ادائیگی پر بارہ کروڑ میں  فروخت کردے،  اور دکان کی قیمت میں سے دو یا تین کروڑ نقد وصول بھی کرلے، تو  اس طرح کرنے سےیہ دکان خریدار  (مشتری)  کی ملکیت ہوجائے گی،پھر اس کے بعد مشتری کے ذمہ  مقررہ مدت تک محض مابقیہ  نو یا دس کروڑ روپے ہی   ادا کرنا لازم ہوگا،اس کے علاوہ اور کوئی چیز اس کے ذمہ لازم نہیں ہوگی۔

لہذا مذکورہ صورت میں  بائع کا  مشتری سے  ہر ماہ چار لاکھ روپے دکان کے کرایہ  کی مد میں  وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ  ایسی صورت میں  ایک تومشتری   اپنی مملوکہ چیز کا کرایہ دے رہا ہوگا جو کہ  شرعاًجائز نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ مابقیہ رقم  اس خریدنے والے کے ذمہ  قرض ہے،اور  اس مابقیہ  قرض کی وجہ سے بائع کا مشتری سے کرایہ وصول کر نا  قرض پر نفع لینا ہے، جو کہ سود ہے۔

شرح المجلة لرستم باز میں ہے:

"البيع مع تأجيل الثمن وتقسيطه صحيح، يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتأجيل والتقسيط… لأن جهالته تفضي إلى النزاع فيفسد البيع به."

(الكتاب الأول في البيوع، الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالثمن، المادة: 246/245، ج:1، ص:100، ط: فاروقيه)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"أما تعريفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي... وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع."

(كتاب البيوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج: 3، ص: 2، ط: دارالفكر بيروت)

وفیه ایضا:

" ومنها الملك والولاية فلا تنفذ إجارة الفضولي لعدم الملك والولاية."

(كتاب الاجارة،الباب الأول تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج: 4، ص: 410، ط: دارالفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144606102469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں