بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان سے آگے فٹ پاتھ پرسامان لگانے کا حکم


سوال

گرین ٹاون لاہور کی مارکیٹ میں میری برتنوں کی دکان ہے، مارکیٹ میں تمام دکانداروں کی طرح ہم بھی دکان کا کچھ سامان (نمائش کے لیے) فٹ پاتھ اور سڑک پر رکھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے تقریبا 5-4فٹ جگہ کور ہوجاتی ہے۔ ایسا چوں کہ  تمام دکاندار  ہی کرتے ہیں، لہذا کسی کو محسوس بھی نہیں ہوتا۔

آپ سے عرض  ہے کہ  شریعت کی روشنی میں رہنمائی  فرما دیں کہ ہمارا یہ عمل درست  ہے یا نہیں؟ کیا اس طرح ہماری کمائی  میں کوئی  نقص تو نہیں آتا؟ اگر نقص آتا ہے  تو اب تک اس ترتیب  پر ہم نے جو کمائی کی  ہے اس کا کیا حکم  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ دوکان کے باہر والا حصہ (فٹ پاتھ یا سڑک) جو دوکان کے مالک کی ملکیت نہیں ہے،یہ عام لوگوں کے گزرنے کے لیے بنائی جاتی ہےنیز  اس پر سامان لگانے سے  لوگوں کو تکلیف کا سامنا  ہوتاہے، اور آمد رفت میں خلل واقع ہوتا ہے؛  لہذا دوکان کی حدود سے باہر  اس طور پر سامان لگانا جائز نہیں ، اور آج تک  اس   طریقے سے جو کمائی کی ہے وہ حلال ہے،البتہ آئندہ  کے لیے اس فعل سے مکمل اجتناب کرے اور گزشتہ فعل پر  سچے دل سے  توبہ واستغفار کریں۔

المحيط البرهانی میں ہے: 

"وسئل أبو القاسم عمن يبيع ويشتري في الطريق قال: إن كان الطريق واسعاً ولا يكون في قعوده ضرر للناس فلا بأس، وعن أبي عبد الله القلانسي أنه كان لا يرى بالشراء منه بأساً وإن كان بالناس ضرر في قعوده، والصحيح هو الأول؛ لأنه إذا علم أنه لا يشتري منه لا يبيع على الطريق فكان هذا إعانة له على المعصية وقد قال الله تعالى: {ولا تعاونوا على الاثم والعدوان}  وبعض مشايخنا قالوا: لاتجوز له العقود على الطريق وإن لم يكن للناس في قعوده ضرر ويصير بالقعود على الطريق فاسقاً؛ لأن الطريق ما اتخذ للجلوس فيه إنما اتخذ للمرور فيه".

(الفصل الخامس والعشرون: ج:7، ص: 140، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں