بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان میں منافع ہونے کی صورت میں تنخواہ ملنے کی شرط پر ملازم رکھنا


سوال

کسی شخص کو اس شرط پر نوکری پر رکھنا جائز ہے کہ اگر منافع ہوا دکان میں  تو تمہیں تنخواہ دیں گے اگر نہیں ہوا تو نہیں؟

جواب

دکان میں کام کے لیے ملازم رکھنا اور اس سے دکان کا کام لینا یہ   ”اجارہ“ کا معاملہ ہے، اور اس میں بنیادی طور پر یہ ضروری ہے کہ عقد کے وقت اجرت رقم کی صورت میں مقرر کرلی جائے، اگر عقد کے وقت اجرت رقم کی صورت میں متعین نہ ہو تو ایسا معاملہ فاسد ہوجاتا ہے۔

نیز  ملازم کی حیثیت اجیر خاص ہے، اجیر خاص اپنے وقت میں اپنی خدمات سپرد کردینے سے ”اجرت(تنخواہ)“ کا مستحق ہوجاتا ہے، اگرچہ کام ہو یا نہ ہو۔

لہذا دکان میں اس شرط پر ملازم رکھنا کہ نفع ہوا تو تنخواہ ملی گی ورنہ نہیں ، شرعاً یہ معاملہ جائز نہیں ہے، اگر ایسا معاملہ کرلیا ہو تو اب  وہ شخص (ملازم) حاضری کی صورت میں اجرتِ مثل کا مستحق ہوگا یعنی اس جیسا دوسرا شخص اس  جیسے کام کی جتنی اجرت لیتا ہے، کام کرنے والے کو اتنی اجرت ملے گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 5):
"وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة.
(قوله: وشرطها إلخ) هذا على أنواع: بعضها شرط الانعقاد، وبعضها شرط النفاذ، وبعضها شرط الصحة، وبعضها شرط اللزوم، وتفصيلها مستوفى في البدائع ولخصه ط عن الهندية. (قوله: كون الأجرة والمنفعة معلومتين) أما الأول فكقوله: بكذا دراهم أو دنانير وينصرف إلى غالب نقد البلد، فلو الغلبة مختلفة فسدت الإجارة ما لم يبين نقداً منها فلو كانت كيلياً أو وزنياً أو عددياً متقارباً فالشرط بيان القدر والصفة وكذا مكان الإيفاء لو له حمل ومؤنة عنده، وإلا فلايحتاج إليه كبيان الأجل، ولو كانت ثياباً أو عروضاً فالشرط بيان الأجل والقدر والصفة لو غير مشار إليها، ولو كانت حيوانا فلا يجوز إلا أن يكون معينا بحر ملخصاً".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6 / 45):
"(الفاسد) من العقود (ما كان مشروعاً بأصله دون وصفه، والباطل ما ليس مشروعاً أصلاً) لا بأصله ولا بوصفه (وحكم الأول) وهو الفاسد (وجوب أجر المثل الاستعمال) لو المسمى معلوماً، ابن كمال. 

(قوله: وجوب أجر المثل) أي أجر شخص مماثل له في ذلك العمل، والاعتبار فيه لزمان الاستئجار ومكانه من جنس الدراهم والدنانير لا من جنس المسمى لو كان غيرهما، ولو اختلف أجر المثل بين الناس فالوسط والأجر يطيب وإن كان السبب حراماً، كما في المنية قهستاني، ونقل في المنح أن شمس الأئمة الحلواني قال: تطيب الأجرة في الأجرة الفاسدة إذا كان أجر المثل، وذكر في المسألة قولين وأحدهما أصح فراجع نسخة صحيحة... (قوله: لو المسمى معلوماً) هذا إنما يصح لو زاد المصنف لايتجاوز به المسمى، كما فعل ابن الكمال تبعاً للهداية والكنز، فكان على الشارح أن يقول: إذا لم يكن مسمى أو لم يكن معلوماً؛ لأن وجوب أجر المثل بالغاً ما بلغ على ما أطلقه المصنف إنما يجب في هذين الصورتين أما لو علمت التسمية فلايزاد على المسمى، كما يأتي". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200813

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں