بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان کی زکات نکالنے کا طریقہ


سوال

ہم لوگ دوکان دار ہیں، سال میں ایک مرتبہ دوکان کا حساب کرتے ہیں، اس کی زکات کس طرح نکالیں؟ سامان کی قیمتِ خرید کے اعتبار سے زکات نکالیں یا قیمتِ فروخت کے اعتبار سے؟

جواب

دوکان میں موجود تجارتی مال کی زکات کے حساب کا  طریقہ یہ ہے کہ زکات کا سال مکمل ہونے پر دوکان میں موجود کل مالِ  تجارت کی قیمتِ  فروخت کو بنیاد بناکر کل مالیت کا چالیسواں  حصہ یعنی کل کا ڈھائی  فیصد بطورِ  زکات ادا کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. قال المحقق: وفي المحيط: ويعتبر يوم الأداء بالإجماع، وهو الأصح، فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليها عنده وعندهما".

(كتاب الزكاة، باب زكاة الغنم، ج:٢، ص:٢٨٦، ط:سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة."

(كتاب الزكاة، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة والعروض، الفصل الثاني في العروض، ج:١، ص:١٧٩، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں