اپنی ذاتی دکان ہے، اس کی چھت پر مسجد بناسکتے ہیں ؟کیاوہ شرعی مسجد ہوگی؟
صورتِ مسؤلہ میں دکان کی چھت پر جو مسجد تعمیرکی جائے گی ،وہ مسجد ِشرعی نہیں کہلائے گی ،بلکہ وہ جگہ مصلیّ کےحکم میں ہوگی ،كیو نکہ مسجدِ شرعی جس جگہ پر قائم ہو وہ جگہ زمین تا آسمان مسجد کے حکم میں ہوتی ہے، اس مقام پر مسجد کے علاوہ کچھ اور قائم کرنا، یا اس کے اوپر ،نیچےکچھ بنانا جائز نہیں ہوتا،لہذا مذکورہ صورت میں دکان کی چھت پر مسجد تعمیر کی جاسکتی ہے تاہم وہ مسجد شرعی نہیں ہوگی ، اس جگہ نمازوں کی ادائیگی جائز ہوگی ؛ البتہ اس میں مسجد کا ثواب نہیں ملے گا ۔
البحرالرائق میں ہے:
"(قوله ومن جعل مسجدا تحته سرداب أو فوقه بيت وجعل بابه إلى الطريق وعزله أو اتخذ وسط داره مسجدا وأذن للناس بالدخول فله بيعه ويورث عنه) لأنه لم يخلص لله تعالى لبقاء حق العبد متعلقا به والسرداب بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره كذا في فتح القدير وفي المصباح السرداب المكان الضيق يدخل فيه والجمع سراديب. وحاصله أن شرط كونه مسجدا أن يكون سفله وعلوه مسجدا لينقطع حق العبد عنه لقوله تعالى {وأن المساجد لله} [الجن: 18]."
(كتاب الوقف، فصل اختص المسجد بأحكام، ج:5، ص:271، ط: دار الكتاب الاسلامي)
فتاویٰ مفتی محمود میں ہے:
"سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین در یں مسئلہ کہ ایک شخص کی دکانیں ملکیہ ہیں۔ ان کے اوپر دوسری منزل پر مسجد بنادی ہے۔ کیا وہ مسجد حکم مسجد کا رکھتی ہےیا نہیں؟ یعنی ثواب مسجد کا ملے گا نماز وہاں پڑھنے والے کو؟ اور جنبی وہاں جاسکتا ہے یا نہیں؟
الجواب : جو شخص مسجد بنائے اور نیچے مسجد کے تہ خانہ یا اوپر اس کے مکان ہے اور کر دیا ہے دروازہ مسجد کا طرف راستہ کے اور علیحدہ کیا ہے اپنی ملک سے، اس کے لیے جائز ہے کہ اس مسجد کو بیچ دے ( کیونکہ وہ شرعاً مسجدنہیں، ظاہر روایت میں) اگر فوت ہوگا تو وہ مسجد اس کے وارثوں کا حق ہے تقسیم کریں گے، اس لیے کہ وہ مسجد خالص واسطے اللہ تعالیٰ کے نہیں بندے کا حق اس میں باقی ہے، ہاں اگر تہ خانہ مسجد کے متعلق اور مسجد کے فائدہ کے لیے ہے تو پھر جائز ہے، اس بالا خانہ میں اگر چہ نماز ہو جائے گی، لیکن ثو اب جو مسجد میں نماز پڑھنے کا حاصل ہوتا ہے اس کا مستحق نہ ہوگا۔ جب وہ مسجد نہیں تو جنبی اور حائضہ کا وہاں جانا ممنوع نہ ہوگا۔یہ جواب صحیح ہے کہ مسجد وقف نہیں ہے، لیکن اس میں نماز با جماعت ہو سکتی ہے، اور جماعت کا ثواب بھی ملے گا، اذان بھی دی جائے اور تراویح وغیرہ بھی پڑھی جائے ۔“
(کتاب المساجد، دکانوں کے اور پرتعمیر شدہ مسجد کا حکم، ج:1، ص:726، ط:جمعیۃ پبلیکشنز)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102884
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن