بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان کے نام یا جگہ کی شہرت کے عوض پیسے وصول کرنے کا حکم


سوال

ٹی اے کی خرید وفروخت جائز ہے یا نہیں؟ یعنی مطلب یہ ہے کہ کوئی بندہ دوکان کرائے پر لیتا ہے، تین سال چلانے کے بعد وہ جگہ مشہور ہو جاتی ہے، اب کرایہ دارشہرت کے الگ پیسا لیتا ہے اور سامان کے الگ،اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ دکان کا نام یا جگہ کی شہرت  کوئی ایسی چیز نہیں جس کا خارج میں کوئی وجود ہو اور اس کی قیمت لگائی جائے، بلکہ یہ ایک  حیثیتِ عرفیہ یا نیک نامی ہے، اس لیے اگر آپ کے سوال کا مقصد یہ ہے کہ اس کو بیچنا یا اس کے عوض رقم لینا کیسا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے عوض رقم لینا یا اس کی قیمت مقرر کرنا جائز نہیں ہے،کیوں کہ یہ فقط ایک حقِ مجرد ہے اور حقوقِ مجردہ کی مستقل طور پر بیع کرنا یا اس کا عوض لینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر سامان وغیرہ کسی چیز کی قیمت مقرر کرتے ہوئے دکان  کی جگہ یا نام کی شہرت کی وجہ سے سامان کی قیمت کچھ زیادہ مقرر کرلی جائے تو اس کی گنجائش  ہے۔

مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’گڈول یعنی ’’نام‘‘ درحقیقت مال نہیں،  بلکہ بمنزلہ حیثیت عرفیہ کی ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں، قانون نے اس کو جوکچھ حیثیت دی ہے، وہ شریعت کی رو سے فتویٰ لے کر نہیں دی ہے، اس لیے یہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کرلیاجائے، جوبھائی حکمِ شرع کی قدر کرتے ہوئے عمل کرے گا ان شاء اللہ نقصان میں نہیں رہے گا، ایثار سے کام لینا دنیا وآخرت میں بہت زیادہ عزت ومنفعت کا ذریعہ ہے۔‘‘

(فتاوی محمودیہ 16/178)

امدادالاحکام میں ہے :

’’ محض اس قانون کے مشہور ہونے سے قرض خواہوں کا حق عنداللہ ساقط نہ ہوگا اور حقوق گڈول کی تنہا قیمت کچھ نہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ حقوق گڈول کی وجہ سے مجموعی دوکان کی قیمت زیادہ شمار کی جائے، مگر چوں کہ تنہا یہ حقوق شرعاً  قیمتی نہیں؛ اس لیے یہ جائز نہیں کہ ایک شریک کو صرف حقوقِ گڈول کی وجہ سے ایک لاکھ کا شریک مانا جائے، بلکہ اس کی طرف تھوڑا بہت مال بھی ہو جس کی قیمت حقوق گڈول کی وجہ سے زیادہ شمار کی جائے۔ ‘‘

(4/452مکتبہ دارالعلوم کراچی)

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 178):

"الحقوق المجردة لايجوز الاعتياض عنها كحق الشفعة؛ فلو صالح عنه بمال بطلت".

فتاوی شامی میں ہے :

’’وفيها: وفي الأشباه: لايجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لايجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف‘‘. (4/518) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144211201383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں