بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان کا مالک معلوم نہ ہو، تو کرایہ کا حکم


سوال

میرے مرحوم خالو کے پاس ایک دوکان تھی جو کہ پگڑی کی تھی،  2004 سے اس کا مالک پگڑی لینے نہیں آیا اور اب تک یہی صورت حال ہے، واضح رہے کہ دوکان والی بلڈنگ کے فلیٹ ابتداء سے ہی غیر آباد ہے اور جو دوکانیں ہیں، وہ پگڑی پر ہیں  اور مالکین کا کوئ پتہ نہیں۔ 

اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اب تک کی جو پگڑی واجب الذمہ ہے، اس کا مرحوم پر کوئی گناہ  ہو گا؟

جواب

واضح رہے کہ مروجہ پگڑی کا  معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی    نہ تو مکمل   خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا  ایک  ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان یا دکان  بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتے ہیں  ،لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے۔ تاهم اگر کسی نے پگڑی کا معاملہ کیا ہو، تو پگڑی پر دینے والے کی حیثیت مالک کی ہے اور  پگڑی پر لینے والے کی حیثیت کرایہ دار کی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر دکان کے مالک کا بالکل علم نہ ہو اور اس کے ورثاء میں سے بھی کسی کا علم نہ ہو، تو اولاً انہیں تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، اس کے باوجود اگر مالک یا  اس کے ورثاء کا علم نہ ہوسکے، تو  ایسی صورت میں دکان داروں پر لازم ہے کہ  کرایہ کی جو رقم بنتی ہے، اتنی رقم مالک کو ثواب پہنچانے کی نیت سے   کسی غریب کو صدقہ کردیں، پھر اگر کبھی مالک واپس آجائے اور وہ اس رقم کے صدقہ کرنے پر راضی ہو، تو ٹھیک ورنہ اتنی رقم مالک کو ادا کردی جائے۔

الدر المختار میں ہے:

"(عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها وأيس) من عليه ذلك (من معرفتهم فعليه التصدق بقدرها من ماله وإن استغرقت جميع ماله) هذا مذهب أصحابنا لا تعلم بينهم خلافا كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها اعتبارا للديون بالأعيان (و) متى فعل ذلك (سقط عنه المطالبة) من أصحاب الديون."

وفي الرد تحته:

"(قوله: ‌جهل ‌أربابها) يشمل ورثتهم، فلو علمهم لزمه الدفع إليهم؛ لأن الدين صار حقهم. وفي الفصول العلامية: من له على آخر دين فطلبه ولم يعطه فمات رب الدين لم تبق له خصومة في الآخرة عند أكثر المشايخ؛ لأنها بسبب الدين وقد انتقل إلى الورثة. والمختار أن الخصومة في الظلم بالمنع للميت، وفي الدين للوارث. قال محمد بن الفضل: من تناول مال غيره بغير إذنه ثم رد البدل على وارثه بعد موته برئ عن الدين وبقي حق الميت لظلمه إياه، ولا يبرأ عنه إلا بالتوبة والاستغفار والدعاء له. اهـ. (قوله: فعليه التصدق بقدرها من ماله) أي الخاص به أو المتحصل من المظالم. اهـ. ط وهذا إن كان له مال. وفي الفصول العلامية: لو لم يقدر على الأداء لفقره أو لنسيانه أو لعدم قدرته قال شداد والناطفي رحمهما الله تعالى: لا يؤاخذ به في الآخرة إذا كان الدين ثمن متاع أو قرضا، وإن كان غصبا يؤاخذ به في الآخرة، وإن نسي غصبه، وإن علم الوارث دين مورثه والدين غصب أو غيره فعليه أن يقضيه من التركة، وإن لم يقض فهو مؤاخذ به في الآخرة، وإن لم يجد المديون ولا وارثه صاحب الدين ولا وارثه فتصدق المديون أو وارثه عن صاحب الدين برئ في الآخرة.

مطلب فيمن عليه ديون ومظالم ‌جهل ‌أربابها (قوله: كمن في يده عروض لا يعلم مستحقيها) يشمل ما إذا كانت لقطة علم حكمها، وإن كانت غيرها فالظاهر وجوب التصدق بأعيانها أيضا (قوله: سقط عنه المطالبة إلخ) كأنه والله تعالى أعلم؛ لأنه بمنزلة المال الضائع والفقراء مصرفه عند جهل أربابه، وبالتوبة يسقط إثم الإقدام على الظلم ط (قوله: يجب عليه أن يتصدق بمثله) المختار أنه لا يلزمه ذلك في القهستاني عن الظهيرية، وكذا في البحر والنهر عن الولوالجية."

(كتاب اللقطة، ج:4، ص:283، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404100159

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں