بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دوکان دار کو بتائے بغیر استعمال شدہ یونیفارم واپس کردینا


سوال

دوکان دار سے اسکول کا یونیفارم خرید کر ایک دن پہن کر اگلے دن سکول تبدیل کرنے کی وجہ سے وہی یونیفارم یہ بتائے بغیر واپس کرنا یا تبدیل کرنا کہ ہم اسے ایک دن پہن چکے ہیں،  کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نئے کپڑوں کا استعمال ہوجانا ، چاہے ایک مرتبہ ہی کیوں نہ ہو،  تاجروں کے نزدیک عیب شمار ہوتا ہے  اور اس کی وجہ سے کپڑوں کی قیمت کم ہوجاتی ہے؛  لہذا واپس کرتے ہوئے  دکاندار  کو  یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ یونیفارم  استعمال ہوچکا ہے اور نہ بتانا دھوکا شمار ہوگا۔دوکان دار  کو اگر اس کا علم ہوتا تو یا وہ یونیفارم کی  واپسی قبول نہیں کرتا یا کم قیمت پر واپس لیتا،چھپانے کی صورت وہ نیا سمجھ کر واپس لے لے گا۔

اگر سائل ایسا کرچکا ہے تو  اسے چاہیے کہ دوکان دار کو مکمل نوعیت بتا کر، نئے سرے سے  واپسی کا  معاملہ  کرلے۔

البحر الرائق میں ہے: (6/ 113):

"قوله: وتصح بمثل الثمن الأول وشرط الأكثر أو الأقل بلا تعيب، وجنس آخر لغو، ولزمه الثمن الأول)، وهذا عند أبي حنيفة لأن الفسخ يرد على عين ما يرد عليه العقد فاشتراط خلافه باطل، و لاتبطل الإقالة كما قدمنا قيد بقوله بلا تعيب إذ لو تعيب بعده جاز اشتراط الأقل، ويجعل الحط بإزاء ما فات بالعيب، ولا بد أن يكون النقصان بقدر حصة الفائت، ولا يجوز أن ينقص من الثمن أكثر منه، كذا في فتح القدير، وفي البناية معزيًا إلى تاج الشريعة هذا إذا كانت حصة العيب مقدار المحطوط أو زائدًا أو ناقصًا بقدر ما يتغابن الناس فيه. اهـ."

(کتاب البیوع باب الاقالہ ج نمبر ۶ ص نمبر ۱۱۳،دار الکتاب الاسلامی)

البحر الرائق میں ہے:

"كتمان عيب السلعة حرام، وفي البزازية و في الفتاوى: إذا باع سلعةً معيبةً، عليه البيان، و إن لم يبين قال بعض مشايخنا: يفسق و ترد شهادته، قال الصدر: لانأخذ به. اهـ. وقيده في الخلاصة بأن يعلم به."

منحة الخالق:

"سئل بعض الشافعية أقول: -و هو ابن حجر الهيتمي و هي في فتاويه- عن رجل عجان خباز يعجن الخبز للبيع و يبيعه على الناس و هو أبرص أجذم ذو حكة و سوداء، فهل يجوز له أن يباشر الخبز المذكور و هو بتلك الصفات أم لا؟ فأجاب بقوله: لايجوز بيع ما باشر نحو عجنه إلا أن يبين للمشتري حقيقة الحال؛ لأنّ المشتري لو اطلع على ذلك لم يشتره منه في الغالب، و كلّ ما كان كذلك يكون كتمه من الغش المحرم، و قد قال صلى الله عليه وسلم: «من غشّ أمتي فليس منّي» ... و قواعدنا لا تأباه و ضابط الغشّ المحرم أن يشتمل المبيع على وصف نقص لو علم به المشتري امتنع عن شرائه، فكلّ ما كان كذلك يكون غشًّا، و كلّ ما لايكون كذلك لايكون غشًّا محرمًا، ذكره في الفتاوى المذكورة، و لا مانع منه عندنا، تأمل اهـ ."

(کتاب البیوع باب خیار العیب ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۶،دار الکتاب الاسلامی)

البحر الرائق میں ہے: 

"(قوله: و ما أوجب نقصان الثمن عند التجار فهو عيب) لأنالمقصود نقصان المالية وذلك بانتقاص القيمة والمرجع في معرفته عرف أهله وهم التجار أو أرباب الصنائع إن كان المبيع من المصنوعات كذا في فتح القدير فلايقتصر الحكم على التجار أطلقه فشمل ما إذا كان ينقص العين أو لاينقصها ولاينقص منافعها بل مجرد النظر إليها كالظفر الأسود الصحيح القوي على العمل وكما في جارية تركية لاتعرف لسان الترك كما في فتح القدير."

(کتاب البیوع باب خیار العیب ج نمبر ۶ ص نمبر ۴۱،دار الکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200482

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں