آج کل دکانوں میں دن کی ابتداء میں پہلا گاہک جو خریداری کرتا ہے ، دکان دار حضرات اُسے "بسم اللہ"سےتعبیر کرتے ہیں اور یہ جملہ استعمال کرتےہیں کہ"میری بسم اللہ ہوگئی"اورجس دن کوئی گاہک نہیں آتا تو کہتے ہیں کہ"آج بسم اللہ نہیں ہوئی"، کیا یہ جملے استعمال کرنا شرعاً درست ہیں؟
واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں ہرکام کی ابتداء بسم اللہ کے ساتھ کرنے کی ترغیب وارد ہوئی ہے، نیز کسی کام کی ابتداء بسم اللہ سے کرنے کی صورت میں اس کے بابرکت ہونے اور پایہ تکمیل تک پہنچنے کوبیان کیا ہے، اور جس کام کی ابتداء بسم اللہ سے نہ کی جائے اس کے ناتمام ہونے کوبتایا ہے، لہذاصورتِ مسئولہ میں دکان دارحضرات جو پہلے گاہگ کےآنے اور نہ آنے کو بسم اللہ سےتعبیر کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ" میری بسم اللہ ہوگئی"، اور" آج بسم اللہ نہیں ہوئی"،عرف میں اس سے مراد کام کا آغاز ہونااورنہ ہونا ہوتا ہے، اس لیے اگر ان الفاظ کے استعمال سے کام کی ابتداء اور اس میں برکت کی نیت ہو تو ان الفاظ کے استعمال کرنے میں بظاہر کوئی حرج نہیں ہے۔
الاذکار للنووی میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: " كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه بالحمد لله فهو أقطع ".وفي رواية: " بحمد الله ". وفي رواية: " بالحمد فهو أقطع ". وفي رواية: " كل كلام لا يبدأ فيه بالحمد لله فهو أجذم ". وفي رواية: " كل أمر ذي بال لا يبدأ فيه ببسم الله الرحمن الرحيم فهو أقطع ". روينا هذه الألفاظ كلها في كتاب " الأربعين " للحافظ عبد القادر الرهاوي، وهو حديث حسن، وقد روي موصولاً كما ذكرنا، وروي مرسلاً، ورواية الموصول جيّدة الإسناد، وإذا روي الحديث موصولاً ومرسلاً فالحكم للاتصال عند جمهور العلماء؛ لأنها زيادة ثقة، وهي مقبولة عند الجماهير، ومعنى " ذي بال ": أي: له حال يهتم به، ومعنى أقطع: أي ناقص قليل البركة، وأجذم: بمعناه، وهو بالذال المعجمة وبالجيم".
(الاذكار للنووي، كتاب حمد الله تعالى، ص:112،ط:دار الفكر)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144306100119
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن