بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کا چھجہ باہر نکال کر دکان بنانا


سوال

ایک شخص نے گھر اس طور پر بنایا کہ اس کے گھر کی چھت تین فٹ آ گے نکلی ہوئی ہے ،اس میں مزید دو فٹ شامل کر کے وہ چھوٹی سی دکان بنالیتا ہے یعنی پانچ فٹ پر دکان بنالیتا ہے، اس جگہ کے بنانے میں بلدیہ اور علاقے کے لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، پوچھنا یہ ہے کہ اس طرح کرنا جائز ہے؟ اور لاعلمی کی بنا پر جو دکان آ ج سے بیس سال پہلے بنائی گئی  ہے ،اس کو ختم کرنا ضروری ہے؟

جواب

 حکومتِ وقت کی جانب سے تعمیراتی سلسلہ میں جو قوانین مفاد عامہ کے پیش نظر بنائے جاتے ہیں ، ان کی پاس داری شہریوں  پر لازم ہوتی ہے، اس لیے غیر قانونی تعمیرات سے اجتناب کرنا چاہیے اور اپنی مملوکہ زمین میں ہی دکان قائم کرکے اس میں کاروبار کرنا چاہیے۔

جو جگہ آپ کی ملکیت میں شامل نہیں اور اس میں آپ نے دکان قائم کی ہے اگر وہ سرکاری جگہ ہے ،اور لوگوں کو اس دکان کے قیام سے کوئی اذیت بھی نہیںو تب بھی سرکار سے اجازت حاصل کرکے قانونی طور پر اسے درست کرلینا چاہیے؛ تاکہ کل کو پریشانی کا سامنا نہ ہو۔اور اگر جس جگہ دکان قائم کی ہے  اپنی ملکیت سے زائد جگہ لے لینے کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہو ،یا ان کے لیے اذیت کا باعث ہو، یااس میں آپ کی اپنی جگہ کے علاوہ باقی جگہ کسی شخص کی ملکیت ہو اور اسے آپ نے اپنی دکان میں شامل کردیا تو ان صورتوں  میں اس کا قائم کرنا جائز نہ ہوگا، بلکہ یہ غصب کے حکم میں ہوگا۔اور لوگوں کو ایذا ہونے کی صورت میں ایذا رسانی کا گناہ بھی ہوگا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"«عن أبي صرمة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من ضار أضر الله به، ومن شاق شق الله عليه»".

(2/785، كتاب الأحكام، باب من بنى في حقه ما يضر بجاره، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فیض القدیر میں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئًا من حقه (ولا ضرار) ... وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل؛ لأن النكرة في سياق النفي تعم".

(فيض القدير للمناوي 6/431، حرف لا برقم: 13474، ط: المكتبة التجارية الكبرى مصر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144211200012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں