بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان (بازار) میں کام کرنے والے کے لیے نظروں کی حفاظت کا حکم


سوال

میں دکان میں کام کرتا ہوں، وہاں پر نظروں کی حفاظت کا کیا حکم ہے؟

 

جواب

نظروں کی حفاظت کا حکم ہر جگہ پر ہے؛ لہٰذا بازار میں  کسی دکان میں کام کرنے کی صورت میں بھی اس بات کا اہتمام کرنا انتہائی ضروری ہے کہ بازار میں اپنی نظروں کی حفاظت کی جائے اور حتی الامکان اس بات کی کوشش کی جائے کہ کسی غیر محرم پر نظر نہ پڑے، اگر دکان میں مجبوراً کبھی کسی غیر محرم عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائےتو  بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت بات کرنا جائز ہے،  ضرورت سے زائد بات چیت کرنے،  ہنسی مزاح کرنے یا اس کا جواب دینے  یا مسلسل روابط کی گنجائش نہیں، بلکہ سخت گناہ کی بات ہے، اسی طرح  کسی نامحرم کو قصدًا دیکھنا   بھی جائز نہیں،  حتیٰ الامکان  نظروں کی حفاظت ضروری ہے۔ 

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ کپڑے سلائی کے لیے کپڑوں کا سائز لیتے وقت یا چوڑیوں کی دکان پر چوڑیاں پہناتے وقت کسی بھی غیر محرم عورت کو چھونا حرام ہے۔ اور غیر محرم کو چھونے پر سخت عذاب کی وعید بھی ہے۔

قرآن کریم کی سورۂ نور آیت 30 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

﴿ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ ۭ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ ﴾

ترجمہ : آپ مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔ یہ ان کے لیے زیادہ صفائی کی بات ہے بے شک اللہ تعالیٰ کو سب خبر ہے جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں ۔(بیان القرآن )

اس آیتِ  مبارکہ سے معلوم ہواکہ اپنی نگاہوں کونیچی اور پست رکھنا ہی بدنظری سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اور اگر کبھی اچانک کسی اجنبی پر نگاہ پڑجائے تو فوراً اپنی نگاہ پھیر لینی چاہیے ، جیساکہ حدیث شریف میں ارشادہے:

"عن بريدة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي : " يا علي لاتتبع النظرة النظرة فإن لك الأولى وليست لك الآخرة."

ترجمہ:  حضرت بریدہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ علی! نظر پڑ جانے کے بعد پھر نظر نہ ڈالو (یعنی اگر کسی عورت پر ناگہاں نظر پڑجائے تو پھر اس کے بعد دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھو )؛ کیوں کہ تمہارے لیے پہلی نظر تو جائز ہے ( جب کہ اس میں قصد و ارادہ کو دخل نہ ہو) مگر دوسری نظر جائز نہیں ہے ۔

اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہواکہ اگر کبھی ناگہاں کسی اجنبی پر نظر پڑبھی جائے توآدمی کو اپنی نظریں جمائے رکھنا جائز نہیں، بلکہ فوراً اپنی نگاہوں کو پھیر لیناچاہیے۔

المستدرك على الصحيحين للحاكم (4 / 349):

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «النظرة سهم من سهام إبليس مسمومة فمن تركها من خوف الله أثابه جل وعز إيمانا يجد حلاوته في قلبه» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه."

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: نظر شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے، پس جو شخص بد نظری کو اللہ تعالیٰ کے خوف سے چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اسے بدلہ میں ایمان کی ایسی کیفیت عطا فرماتے ہیں جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔

 باقی  نظروں کی حفاظت ہو یا دیگر گناہوں سے بچنا، اس سلسلے میں سب سے کار گر نسخہ نیک لوگوں کی صحبت ہے، لہٰذا کسی بھی متبعِ شریعت مستند عالمِ دین سے اصلاحی تعلق قائم رکھیے، ان سے اہم امور اور معاملات میں مشاورت کرتے رہیے، اور ان کے مشورے کے مطابق عمل کرتے رہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں