بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دوکان کی زکات کیسے دی جائے؟


سوال

دوکان کی زکات کیسے ادا کی جائے؟ طریقہ بتادیں!

 

جواب

نفسِ  دوکان پر زکات کے وجوب  اور عدمِ  وجوب کا تعلق اس بات سے ہے کہ اگر دوکان کی خریداری اسے آگے فروخت کرنے کی نیت سے کی گئی ہو تو اس صورت میں ہر سال اس کی موجودہ ویلیو معلوم کرکے اس ویلیو کو مالِ  نصاب میں شامل کیا جائے گا، اور کل کا چالیسواں حصہ بطورِ  زکات دیا جائے گا، البتہ اگر ایسی دوکان کرایہ پر اٹھادی گئی ہو تو اس صورت میں دوکان کی ویلیو پر زکات واجب نہ ہوگی، تاہم  اس کے کرایہ  پر زکات اس وقت واجب ہوگی جب کہ کرایہ خرچ نہ ہوتا ہو، محفوظ رہتا ہو، یا اس کا کچھ حصہ زکات کا سال پورا ہونے پر موجود ہو اور وہ ضرورت سے زائد ہو۔ پس زکات کا سال مکمل ہونے پر کل محفوظ کرایہ  مال نصاب میں شامل کرکے زکات کا حساب کیا جائے گا۔

اور اگر دوکان فروخت کرنے کی نیت سے بھی نہیں لی، یا فروخت کرنے کی نیت سے لی تھی لیکن اب نیت بیچنے کی نہیں ہے، اور دکان کرائے پر بھی نہیں دی تو اس دوکان کی مالیت پر بھی زکات واجب نہیں ہوگی۔

البتہ اگر  آپ کے سوال کا تعلق دوکان میں موجود تجارتی مال کی زکات کے حساب کا  طریقہ معلوم کرنے  سے ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ زکات کا سال مکمل ہونے پر دوکان میں موجود کل مالِ  تجارت کی قیمتِ  فروخت کو بنیاد بناکر کل مالیت کا چالیسواں  حصہ یعنی کل کا ڈھائی  فیصد بطورِ  زکات ادا کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا: يوم الأداء. قال المحقق: وفي المحيط: ويعتبر يوم الأداء بالإجماع، وهو الأصح، فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليها عنده وعندهما".

(كتاب الزكاة،  باب زكاة الغنم:٢/ ٢٨٦  ، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ. وَيُقَوَّمُ بِالْمَضْرُوبَةِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ وَتُعْتَبَرُ الْقِيمَةُ عِنْدَ حَوَلَانِ الْحَوْلِ بَعْدَ أَنْ تَكُونَ قِيمَتُهَا فِي ابْتِدَاءِ الْحَوْلِ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ مِنْ الدَّرَاهِمِ الْغَالِبِ عَلَيْهَا الْفِضَّةُ كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ ثُمَّ فِي تَقْوِيمِ عُرُوضِ التِّجَارَةِ التَّخْيِيرُ يَقُومُ بِأَيِّهِمَا شَاءَ مِنْ الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ إلَّا إذَا كَانَتْ لَا تَبْلُغُ بِأَحَدِهِمَا نِصَابًا فَحِينَئِذٍ تَعَيَّنَ التَّقْوِيمُ بِمَا يَبْلُغُ نِصَابًا هَكَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ".

( كتاب الزكوة، الْفَصْلُ الثَّانِي فِي الْعُرُوض، ١ / ١٧٩، ط: دار الفكر)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

" اتفق الفقهاء على أنه يشترط في زكاة مال التجارة أن يكون قد نوى عند شرائه أو تملكه أنه للتجارة، والنية المعتبرة هي ما كانت مقارنةً لدخوله في ملكه؛ لأن التجارة عمل فيحتاج إلى النية مع العمل، فلو ملكه للقنية ثم نواه للتجارة لم يصر لها، ولو ملك للتجارة ثم نواه للقنية وأن لايكون للتجارة صار للقنية، وخرج عن أن يكون محلاً للزكاة ولو عاد فنواه للتجارة لأن ترك التجارة، من قبيل التروك، والترك يكتفى فيه بالنية كالصوم". ( ٢٣ / ٢٧١)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں