بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دکان کرایہ پر دیکر کرایہ دار سے کاروباری نفع کو کرایہ کے طور وصول کرنے کا حکم


سوال

میں نے  سپر مارکیٹ میں ایک جگہ کاؤنٹر کےلیے لی ہے ، مالک کا کہنا  یہ ہے مہینے میں جو بھی سیل آئے گی ، اس میں سے اٹھارہ  فیصد میرا اور باقی تیرا ، اس کے علاوہ کوئی کرایہ وغیرہ نہیں ، لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ اگر مہینے میں سیل تیس لاکھ سے کم ہو تو میں پورا پانچ  لاکھ چالیس ہزار روپے لوں گا جو کہ تیس لاکھ کا اٹھارہ فیصد ہے ، یعنی اگر سیل تیس لاکھ سے زیادہ ہو تو اس کا اٹھارہ فیصد جو بھی ہوگا وہ میں لوں گا ، لیکن اگر تیس لاکھ سے کم ہوتو پورے تیس لاکھ کا اٹھارہ فیصد لوں گا۔

لہذا مالک منافع میں تو برابر کا شریک بن رہاہے اور نقصان میں شریک نہیں ہورہا ہے ، بلکہ پورا کا پورا  تیس لاکھ کا اٹھارہ فیصد مانگ رہا ہے ، کیا یہ سود نہیں ہے ؟ کیا یہ مکس اماؤنٹ (رقم ) شریعت کی رو سے جائز ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مالک کا جگہ فراہم کرکے تیس لاکھ سے اوپر سیل ہونے پر سیل کا اٹھارہ فیصد اور تیس لاکھ سے کم کی سیل  ہونے پر تیس لاکھ کا اٹھارہ فیصد وصول کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ،   لہذا   دکان کا مالک  اگر سائل کے ساتھ کاروباری شراکت کرنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ سائل کے کاروبار میں اپنی رقم شامل کرلے  اور  دونوں   تجارتی  مال میں  شریک ہوجائیں،اس صورت میں نفع کی تقسیم دونوں کی باہمی رضامندی سے طے کردی جائے  اور نفع اسی طرح لیں، اور نقصان کی صورت میں ہر ایک اپنے اپنے سرمایے کے بقدر نقصان برداشت کرے گا ، اور اگر دکان کا  مالک اس طرح شرکت  کرنا نہیں چاہتا تو پھر اپنی جگہ کا کرایہ متعین کرکے ہر ماہ کا متعین    کرایہ وصول کرے ، اس صورت میں سائل کے کاروبار میں نفع ہو یا نقصان، دکان کے مالک کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ،وہ بہر صورت اپنی جگہ کا طے کردہ کرایہ لینے کا حق دار ہوگا ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أما شركة العنان فهي أن يشترك اثنان في نوع من التجارات بر أو طعام أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة خاصة، كذا في فتح القدير، وصورتها أن يشترك اثنان في نوع خاص من التجارات أو يشتركان في عموم التجارات ولا يذكران الكفالة والمفاوضة فيها فتضمنت معنى الوكالة دون الكفالة حتى تجوز هذه الشركة بين كل من كان من أهل التجارة، كذا في محيط السرخسي. فتجوز هذه الشركة بين الرجال والنساء والبالغ والصبي المأذون والحر والعبد المأذون في التجارة والمسلم والكافر، كذا في فتاوى قاضي خان. وفي التجريد " والمكاتب "، كذا في التهذيب ...  وأما شرط جوازها فكون رأس المال عينا حاضرا أو غائبا عن مجلس العقد لكن مشارا إليه، والمساواة في رأس المال ليست بشرط ويجوز ‌التفاضل ‌في ‌الربح مع تساويهما في رأس المال، كذا في محيط السرخسيوأما شرط جوازها فكون رأس المال عينا حاضرا أو غائبا عن مجلس العقد لكن مشارا إليه، والمساواة في رأس المال ليست بشرط ويجوز ‌التفاضل ‌في ‌الربح مع تساويهما في رأس المال، كذا في محيط السرخسي."

( كتاب الشركة ، الباب الثالث في شركة العنان ، الفصل الأول في تفسير شركة العنان وشرائطها وأحكامها ، ج:2 ، ص:319 ، ط: دارالفكر )

وفيه ايضاً :

"ومنها أن تكون الأجرة معلومة. ومنها أن لا تكون الأجرة منفعة هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة. ومنها خلو الركن عن شرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه."

كتاب الاجارة ، الباب الاول تفسير الاجارة وركنها و الفاظها و شرائطها ، ج:4 ، ص:411 ، ط: دارالفكر )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144309100180

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں