بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عارضی استاذ کا رمضان کی تنخواہ دگنی لینا


سوال

میرے ایک دوست ہیں ،وہ رمضان سے تین مہینہ پہلے ایک مدرسہ میں پڑھانے گئے تھے کیونکہ اس وقت وہ مدرسہ والے کافی پریشان تھے ،اچانک ان کے استاد نکل گئے تھے اور دوسرا استاد نہیں مل رہا تھا ،تو ان کو منت کر کے انہوں نے بلایا ،اب جب کہ رمضان میں چھٹی ہوتی ہے اور جب کوئی  مدرس رمضان میں یہاں کام کرتا ہے تو وہاں کے اساتذہ کو ڈبل تنخواہ دی جاتی ہے،جب میرے دوست نے عید کے بعد ان سے تنخواہ مانگی تو انہوں نے کہا آپ عارضی استاد تھے آپ کو نہیں ملے گی ،حالانکہ یہ معاہدہ ہوا تھا کہ آپ کو ڈبل تنخواہ ملے گی ،جس کے دو گواہ بھی ہیں اور یہ کہا کہ آپ نے چندہ نہیں کیا آپ نے بس پڑھایا ہے،حالانکہ انہوں نے پورے رمضان میں اکیلا پڑھایا اور وہاں کی دیکھ بھال کی۔تو آپ برائے مہربانی یہ فرما دیں کہ یہ تنخواہ عارضی ہونے کے باوجود بھی لینا جائز ہے کہ نہیں ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے دوست کے ساتھ مدرسہ انتظامیہ نے ابتداء میں یہ معاہدہ طے کیا تھا کہ انہیں رمضان میں تدریس ودیگر امور کی انجام دہی پر ڈبل تنخواہ دی جائے گی، جیساکہ سوال میں صراحت ہے تو اس صورت میں مذکورہ استاذ رمضان میں عارضی تدریس کے باوجود ڈبل تنخواہ کے حق دار ہیں ، اور ضابطے کے موافق وہ اہل مدرسہ سے رمضان میں مفوضہ ذمہ داریوں کے انجام دینے پر معاہدے کے مطابق تنخواہ وصول کرسکتے ہیں۔

فتاوی مفتی  محمود میں ہے :

’’...اس کے متعلق واضح رہے کہ اگر مدرس رکھتے وقت مدرس کے ساتھ ایامِ عطلہ کی تنخواہ کے متعلق کچھ طے کیاگیا ہو تب اسی کے مطابق عمل کیا جائے گا اور اگر کچھ بھی اس کے بارہ میں پہلے سے طے نہ کیاگیا تھا تب عام مدارس کے اصول کے مطابق عمل کیا جائے گا۔‘‘

(ج: 9،ص:365،ط:جمعیت پبلیکشنز)

الاشباہ والنظائرمیں ہے:

 " ومنها البطالة في المدارس کأیام الأعیاد ویوم عاشوراء وشهر رمضان في درس الفقه لم أرها صریحة في کلامهم. والمسألة علٰی وجهین: فإن کانت مشروطةً لم یسقط من المعلوم شیئ وإلا فینبغي أن یلحق ببطالة القاضي وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب له من بیت المال في یوم بطالته ، فقال في المحیط: إنه یأخذ یوم البطالة لأنه یستریح للیوم الثاني، وقیل: لایأخذ، انتهى. وفي المنیة: القاضي یستحق الکفایة من بیت المال في یوم البطالة في الأصح، واختاره في منظومة ابن وهبان وقال: إنه الأظهر، فینبغي أن یکون کذلک في المدارس؛ لأن یوم البطالة للاستراحة، وفي الحقیقة یکون للمطالعة والتحریر عند ذی المهمة". 

(الأشباه والنظائر، الفن الأول، القاعدة السادسة: العادة محکمة، ص:۹۶،ط:قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں