بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دفتر کے فارغ اوقات میں تلاوت کا حکم


سوال

میں دفتری اوقات کے فارغ وقت میں قران مجید کی تلاوت کرتا ہوں اور ہمارے تین مالکان میں سے دو کو اس بات کا پتہ ہے، کیا دفتری اوقات میں اس طرح تلاوت کرنا جائز ہے، کیا یہ تلاوت میرے لیے وبال تو نہیں بنے گی؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے اور اجیر خاص کا حکم یہ ہے کہ وہ  ملازمت کے اوقات میں (فرض واجب اور سنتِ مؤکدہ نمازوں کی ادائیگی اور طبعی حاجت کے علاوہ) دوسرا کوئی کام نہیں کرسکتا؛ لہذا آفس کے اوقات میں قرآن مجید کی تلاوت کرنا شرعاً درست نہیں، البتہ اگر  مالک  کی  طرف سے اس کی اجازت ہو، یامالکان  کو پتہ ہو اور دفتری کام نہ ہونے کی وجہ سے  وہ منع نہ کرتے ہوں اور اس سےدفتری کام  متاثر نہ ہوتا  ہو تو  ملازمت کے اوقات میں تلاوت کرنے کی اجازت ہو گی۔

     فتاوی شامی میں ہے:

(قوله: و ليس للخاص أن يعمل لغيره) بل و لا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي و إذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة و لايشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، و في فتاوى سمرقند: و قد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. و اتفقوا أنه لايؤدي نفلاً، و عليه الفتوى".

(  کتاب الاجارۃ،ج: ۶، صفحہ: ۷۰،  ط:ایچ، ایم، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507102063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں