بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دبر (یعنی پیچھے کے راستے) سے ہم بستری کرنے والے شوہر سے چھٹکارے کا طریقہ


سوال

میں اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی ہوں،میری شادی کو تین سال ہوگئے ہیں اور میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں،میرا شوہر میرے ساتھ بہت زیادتی اور ظلم کرتا ہے،میراشوہر میرے حقوق ادا نہیں کرتا،میاں بیوی کے درمیان جس طرح مباشرت ہوتی ہے،میرا شوہر اس طرح نہیں کرتااور ہوس پوری کرنے کے لیے جو طریقہ شریعت میں ناجائز اور حرام ہے،وہ طریقہ اختیار کرتا ہے،یعنی پیچھے کے راستے سے مباشرت کرتا ہے اور آگے سے کچھ نہیں کرتا،میں پریشان ہوں،وہ کہتا ہے کہ میں آپ کو اسی طرح استعمال کروں گا اور کہتا ہے کہ آپ مجھے اچھی نہیں لگتی اور میں کبھی بھی دوسری شادی کرسکتا ہوں،میں نے اسے بہت سمجھایا،لیکن میں جب اسے یہ کہتی ہوں کہ یہ گناہ ہے،تو وہ مجھے مارتا ہے اور گھر سے نکالنے کی دھمکی دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب بھی ہوگا میں دوسری شادی کرلوں گا اور آپ کو چھوڑ دوں گا۔

اس سے میری شادی اس وجہ سے ہوئی تھی کہ اس کی والدہ کا جب انتقال ہورہا تھا تو انہوں نے میرے والد سے کہا تھا کہ میری خواہش ہے کہ آپ اپنی بیٹی کی شادی میرے بیٹے سے کریں گے،لیکن میں اس وقت بھی اس رشتے سے خوش نہیں تھی،میرے والد صاحب نے صرف اس وجہ سے میری شادی کردی کہ میں زبان دے چکا ہوں،لیکن میں اب   سے طلاق لینا چاہتی ہوں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا میرا اس سے طلا ق لینا جائز ہے یا نہیں؟اگر وہ مجھے طلاق نہیں دیتا تو پھر میں اس سے کیسے چھٹکارا حاصل کروں؟کیوں کہ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے وہ اپنی ہوس پوری کرنے کے لیے پیچھے کا راستہ ہی استعمال کرتا ہے اور دھمکی دیتا ہے کہ اگر میری بات نہیں مانی تو میں آپ کو خاندان میں شرمندہ،ذلیل اور خوار کروں گا۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں اپنی بیوی کے ساتھ غیر فطری طریقےیعنی پیچھے کے راستے سےہم بستری کرنا حرام ہے،حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہےاور ایسا فعل کرنے والے پر حدیثِ مبارکہ میں لعنت وارد ہوئی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کابیان صحیح اور درست ہے کہ سائلہ کا شوہر سائلہ کے ساتھ پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرتا ہے،تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ سخت گناہ گار ہورہا ہے،اس پر لازم ہے کہ اپنے اس عمل سے توبہ واستغفار کرے اور اپنی بیوی یعنی سائلہ کے ساتھ فطری طریقہ یعنی آگے کے راستے سے ہم بستری کرے اور اس کے تمام حقوق ادا کرتے ہوئے اچھے طریقے سے زندگی گذارے۔

  اگر سائلہ کا شوہر اپنی اس غیر فطری حرکت سے باز نہیں آتا ہےتو اولاً خاندان کے بڑے اور معزز افراد کو چاہیے کہ وہ سائلہ کے شوہر کواس بات کے سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کریں کہ وہ اپنی اس غیر فطری حرکت سے باز آجائے اور اپنی بیوی یعنی سائلہ کے ساتھ فطری طریقہ سےہم بستری کرکے اپنا گھر آباد کرے،اس کے باوجود بھی اگر  سائلہ کا شوہر اپنی اس غیر فطری حرکت سے باز نہ آئےتو سائلہ کو چاہیے کہ  اپنے شوہر سےطلاق یا خلع لے کر اس سے علیحدہ ہوجائے،اگر وہ طلاق یا خلع دینےپر بھی آمادہ نہ ہو تو سائلہ کو چاہیے کہ کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں اپنا دعوی دائر کرے اورعدالت میں اپنےشوہر کے اس ناجائز اور غیر فطری حرکت کرنے سے باز آنے اور جائز حرکت سے ہم بستری کرنے کی درخواست کرے،حاکم سائلہ کےشوہر کو بلائے اور اس سے اپنی بیوی یعنی سائلہ کے ساتھ جائز اور فطری طریقے سےہم بستری کرنے کی ضمانت لے،اگروہ اس بات کو مان لے اور اپنی اس ناجائز  اور غیر فطری حرکت سے باز آجائے تو حاکم بیوی کو اس کے حوالے کردے،ورنہ اس کو طلاق دینے پر مجبور کرے،اگر سائلہ کا شوہردونوں باتوں( یعنی جائز طریقہ اختیار کرنے یا طلاق دینے)میں سے کسی  پربھی آمادہ نہ ہوتو حاکم سائلہ کے خاوند کواس جرم کی بنیاد پرتعزیراً قید وبندوغیرہ کی سزا بھی دے سکتا ہے،یہاں تک کہ وہ جائز طریقہ اختیار کرے یااپنی بیوی کو طلاق دے دے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

" عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأته في دبرها»."

(کتاب النکاح، باب في جامع النكاح، ج:1، ص:311، ط:رحمانيه)

"ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی بیوی سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے۔"

سنن ترمذی ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاينظر الله إلى رجل أتى رجلاً أو امرأةً في الدبر»."

(ابواب الرضاع، ج:1، ص:350، ط:رحمانيه)

"ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ پیچھے کے راستے سے بد فعلی کرے۔"

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام."

(كتاب الكراهية، الباب التاسع، ج:5، ص:330، ط:رشيديه)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"حل الوطء في القبل لا الدبر...لقوله تعالى: {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم} [البقرة:223/ 2] أي في أي وقت وكيفية شئتم في المكان المعروف وهو القبُل...وقوله صلّى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأة في دبرها» (2) «من أتى حائضاً أو امرأة في دبرها، أو كاهناً فصدَّقه، فقد كفر بما أنزل على محمد صلّى الله عليه وسلم»....لكن لا تطلق المرأة بالوطء في دبرها، وإنما يحق لها طلب الطلاق من القاضي بسبب الأذى والضرر."

(ألقسم السادس، الفصل الثاني، المبحث الرابع، احكام الزواج، ج:9، ص:6590، ط:دار الفكر)

الدر المختار میں ہے:

"(أو) بوطء (دبر)...إن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر...وفي الفتح يعزر ويسجن."

(رد المحتار،كتاب الحدود، ج:4، ص:27، ط:سعيد)

فتاوی مفتی محمودؒ میں اس مسئلے کے متعلق مذکور ہے:

"صورتِ مسئولہ میں یہ عورت اپنے خاوند کوبرادری اور وہاں کے معززین کے ذریعے سے سمجھائے کہ مسمی بشیر احمد اپنی زوجہ کو جائز طریقے سے آباد کرے اور اسے جہاں تک ہوسکے برادری اہلِ اسلام اس پر مجبور کریں اور باوجود برادری و معززین کے سمجھانے اور کوشش کرنےکےوہ اپنی زوجہ کو جائز طریقے سے آباد نہ کرےتو برادری اور اہلِ اسلام کا یہ فرض ہے کہ اس سے قطع تعلق کردیں،نیز یہ عورت حکومت میں چارہ جوئی کرےاور کسی مسلمان حاکم کی عدالت میں خاوند کااس سے ناجائز حرکت سے باز آنے اور جائز طریقے سے آباد کرنے کی درخواست دے،حاکم مسلمان اس کے خاوند کو بلائے اور اس سے اپنی بیوی کو جائز طریقے سے آباد کرنے کی ضمانت لے،اگر حاکم کو تسلی ہوجائے تو زوجہ کو اس کے حوالے کردے،ورنہ اس کو طلاق دینے پر مجبور کرے،حاکم مسماۃ کے خاوند کو اس جرم کی بنیاد پر قیدوبند کی سزا بھی دے سکتا ہےتاآنکہ وہ جائز طریقے سے آباد کرے یا طلاق دے دے۔"

(ج:7، ص:128، ط:اے مشتاق پریس لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں