میری پھوپھی مرحومہ جو کہ بیوہ تھیں، کا جب انتقال ہوا تو ہم نے اپنے قبرستان دولتالہ تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں سب کے لیے اگلے دن جنازے کا اعلان کیا، جب کہ ان کے علاقہ تحصیل لاوہ ضلع تلہ گنگ میں وہاں کے مقامی لوگوں نے اسی دن شام کو ایک جنازہ پڑھ لیا، جس میں کسی بھی ولی نے شرکت نہیں کی، اور ولی(بڑا بیٹا)کا بیان ہے کہ نہ میں نے کسی کو جنازہ پڑھنے کا کہا اور نہ ہی کسی کو منع کیا، بہ ہرحال اگلے دن جب جنازہ ہمارے قبرستان میں پہنچا اور عین نماز جنازہ کا وقت ہوا تو دو مقامی علماءِ کرام نے اعلان کیا جب کہ صفیں بن چکی تھیں کہ جنازہ ایک پڑھا گیا ہے دوسرا جنازہ نہیں ہے،دوسرا پڑھنا حرام ہے،جس پرلوگوں میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں، اکثر رشتہ دار اور دوست احباب باتیں کرنے لگے کہ جب جنازہ نہیں تھا تو ہمیں کیوں بلایا، کچھ کہنے لگے دیکھو علماء ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے، جس پر میں نے دو مفتیان کرام سے رابطہ کیا، اور انہوں نے کہا جنازہ پڑھ لو، تو میں نے جنازہ پڑھا دیا، اکثر لوگوں نے اور اولیاء نے پڑھ لیا جب کہ کچھ لوگ ان علماء کرام کے ساتھ کھڑے رہے اور انہوں نے نہیں پڑھا۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ صورت حال کے پیش نظر(کہ جب حقیقی اولاد اور رشتہ داروں میں سے کسی نے بھی جنازہ نہیں پڑھا تھا)،میرا دوسرا جنازہ پڑھانا شرعا کیسا ہے؟آیا اس پر میں گناہگار تو نہیں ہوا؟
واضح رہے کہ اگر میت کے اولیاء نے نمازِ جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی ان کی اجازت سے پڑھی گئی، بل کہ ایسے لوگوں نے پڑھی جن کو اس میت پر ولایت کا حق نہیں ، تو ولی اس کی نمازِجنازہ پڑھ سکتا ہے، لیکن اس دوسری جماعت میں صرف وہ لوگ شریک ہوں گے جو پہلی میں شریک نہیں تھے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پہلی مرتبہ نماز جنازہ میں میت کا ولی شریک نہیں تھا، اور نہ ہی ان کی اجازت سے نماز جنازہ ادا کی گئی تھی تو سائل کے لیے دوبارہ نماز جنازہ پڑھانا درست تھا۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"و لو صلّى علیه الولي، و للمیت أولیاء أخر بمنزلته، لیس لهم أن یعیدوا، کذا في الجوهرة النیرة."
(کتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الفصل الخامس في الصلاة على المیت، 1/ 164، ط: رشیدیه کوئٹه)
الدر المختار میں ہے:
"فإن صلی غیره أي غیر الولي ممن لیس له حق التقدم علی الولي و لم یتابعه الولي أعاد الولي ولو علی قبره".
(کتاب الصلوۃ، باب صلاة الجنائز، 2/ 222، ط: سعید)
حاشية الطحطاوی على مراقي الفلاح میں ہے:
"أما إذا أذن له أو لم يأذن ولكن صلى خلفه فليس له أن يعيد لأنه سقط حقه بالأذن أو بالصلاة مرة وهي لا تتكرر ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء آخرون بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا لأن ولاية الذي صلى متكاملة."
(كتاب الصلوة، فصل السلطان أحق بصلاته، ص: 591، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501102415
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن