بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دبئی میں احرام پہننا


سوال

عمرہ کرنے کے لیے جا رہے ہیں اور دبئی ایئرپورٹ پر رکنا ہے کچھ گھنٹے، تو کیا احرام کی چادریں دبئی ایئرپورٹ پر پہن سکتے ہیں ؟ کیا میقات دبئی ایئرپورٹ سے تو شروع نہیں ہوتی اور احرام پہن کر تلبیہ پڑھ کر عمرہ کی نیت کر کے جہاز میں بیٹھ جائے تو پھر مسجد عائشہ جانا ضروری ہے واپس نیت کرنے کے لیے عمرہ کی؟

جواب

واضح رہے کہ میقات سے پہلے احرام باندھنا اور تلبیہ پڑھنا فرض ہے،لہذا صورت مسئولہ میں سائل دبئی ائیرپورٹ پراحرام باندھ سکتا ہے اور دبئی ائیر پورٹ میں بھی عمرہ کی نیت کرسکتا ہے اور اگر دبئی ائیر پورٹ میں احرام پہن کر عمرہ کی نیت اور تلبیہ نہیں پڑھا تو  دبئی سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے جو میقات آتا ہے، جہاز میں اس کا اعلان کردیا جاتا ہے،  اس وقت بھی عمرہ  کی نیت کی  جاسکتی ہے،   مسجد عائشہ جانے کی ضرورت نہیں ، ہاں البتہ مکہ مکرمہ میں پہنچ کر عمرہ کر کے جب حلال ہوجائے اس کے بعد اگر دوسرا عمرہ کرنا چاہے تو عمرہ کے احرام کی نیت کے لیے  مسجد عائشہ رضی اللہ عنہا یا کسی اور سمت سے حل میں جانا ضروری ہوگا،  مذکورہ صورت میں  اگر عمرہ کی نیت کے بغیر حدود حرم میں داخل ہوگیا اور اس کے بعد قریبی کسی میقات میں جاکر عمرہ کا احرام نہیں باندھا یعنی عمرہ کی نیت نہیں کی ،  تو ایسی صورت میں دم( ایک چھوٹا جانور) دینا ضروری ہوگا، دم لازم ہونے کی صورت میں ایک بکرا/ بکری حدودِ حرم میں ذبح کروانا ضروری ہوگا۔

بخاری شریف میں ہے:

’’عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: وقّت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم لأهل المدینة ذا الحلیفة ولأهل الشام الجحفة ولأهل نجد قرن المنازل ولأهل الیمن یلملم، فهن لهن ولمن أتی علیهن من غیرهن لمن کان یرید الحج والعمرة، فمن کان دونهن فمهله من أهله، وکذٰلک حتی أهل مکة یهلون منها‘‘.

(صحیح البخاري۱؍۲۰۶)

مسلم شریف میں ہے:

’’أخبرني أبو الزبیر أنه سمع جابر بن عبد اللّٰه رضي اللّٰه تعالیٰ عنه یسئل عن المهل فقال: أحسبه رفع إلی النبي صلی اللّٰه تعالیٰ علیه وسلم، فقال: مهل أهل المدینة من ذي الحلیفة والطریق الأٰخر الجحفة، ومهل أهل العراق من ذات عرق، ومهل أهل نجد من قرن، ومهل أهل الیمن من یلملم‘‘.

(صحیح مسلم۱؍۳۷۵، نخب الأفکار۶؍۳۶) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما العمرة فلما روي «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لما أراد الإفاضة من مكة دخل على عائشة - رضي الله عنها - وهي تبكي فقالت: أكل نسائك يرجعن بنسكين، وأنا أرجع بنسك واحد فأمر أخاها عبد الرحمن بن أبي بكر - رضي الله عنه - أن يعتمر بها من التنعيم»."

(فصل بیان ما یحرم بہ المحرمون،کتاب الحج، جلد 2، ص:167، ط: سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وحرم تأخير الإحرام عنها) كلها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مكة) يعني الحرم (ولو لحاجة) غير الحج.

وفي حاشيته: (قوله وحرم إلخ) فعليه العود إلى ميقات منها وإن لم يكن ميقاته ليحرم منه، وإلا فعليه دم."

(كتاب الحج، مطلب في المواقيت، ج: 2، ص: 477، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں