بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دبئی بینک الماریہ المحلی میں اکاؤنٹ کھولنے کا حکم


سوال

دبئی کے ایک بینک جس کا نام ہے 'بینک الماریۃ المحلی 'اس میں جب کوئی اکاؤنٹ بناتا ہے تو وہ اپنی طرف سے مہینے کے اعتبار سے اضافہ کرتے ہیں، حالانکہ ہم نے ان کو نہیں کہا کہ ہمیں اضافے والا اکاؤنٹ کھول کردیں۔ تو اس میں اکاؤنٹ بنانا کیسا ہے اگر پیسے ضائع ہونے کا خدشہ ہو؟

جواب

واضح رہے کہ   رقم کے اضافے والا اکاؤنٹ کسی بھی بینک میں کھولنا اور اضافہ لینا جائز نہیں ہے۔

باقی مال کی حفاظت کی اگر کوئی معتمد صورت نہ ہو تو ضرورت کی وجہ سے  بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلوا کر اس میں حفاظت کی غرض سے مال رکھوانے کی گنجائش ہے،اس میں کسی بھی بینک کو ترجیح نہیں ہے،جہاں سہولت ہو وہاں کھول سکتے ہیں، البتہ اگر کوئی متبادل صورت ہو کہ جس کے ذریعے مال کی حفاظت ہو سکتی ہو تو پھر بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی رقم رکھوانے سے  اجتناب کرنا چاہیے، کیوں کہ کرنٹ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانے والا اگرچہ عملی طور پر کسی قسم کا سودی معاہدہ نہیں کرتا، لیکن بینک اس کی رکھوائی گئی رقم اپنے سودی معاملات  ہی میں استعمال کرتا ہے، اور مال رکھوانے والا نہ چاہتے ہوئے بھی سودی لین دین کا کسی نہ کسی درجہ میں حصہ بن جاتا ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر   مال کی حفاظت کی کوئی متبادل صورت موجود نہ ہو تو کسی بھی بینک (بشمول  بینک الماریۃ المحلی) میں مجبوراً  کرنٹ اکاؤنٹ کھلوانے کی گنجائش ہے اور جو بینک اس کے مال کو سودی معاملہ میں استعمال کرے گا تو اس کا گناہ متعلقہ ذمہ داران کو ہوگا، نہ کہ اکاؤنٹ ہولڈر کو۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

" وعن النعمان بن بشير - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشتبهات لايعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب» ". متفق عليه.

(وبينهما مشتبهات) : بكسر الموحدة أي: أمور ملتبسة غير مبينة لكونها ذات جهة إلى كل من الحلال والحرام."

(کتاب البیوع باب الکسب و طلب الحلال،ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۸۹۱،دار الفکر)

کفایت المفتی میں ہے:

’’حفاظت کی معتمد صورت نہ ہو تو بینک میں جمع کرادینا مباح ہے۔‘‘

(ج:7، ص:102، ط:دار الاشاعت)

الأشباه والنظائرمیں ہے:

" الأولى: الضرورات تبيح المحظورات ... الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها ."

(ص:73، ط:دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں