بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعائے قنوت رکوع کے بعد پڑھنے کی تحقیق


سوال

 وتر کی نماز میں تیسری رکعت کے بعد سعودیہ عرب میں رکوع کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعائے قنوت پڑھی جاتی ہے کیا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں وتر میں دعائے قنوت تیسری رکعت کی رکوع میں جانے سے قبل تکبیر کہہ کر اور دونوں ہاتھ باندھ کر پڑھنی چاہیے، اور یہی عمل وتر میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، تاہم چند دن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد الرکوع بھی پڑھی ہے، لیکن وہ قنوتِ نازلہ پر محمول ہے،  جیسے کہ درجِ ذیل روایت میں مروی ہے:

"حدثنا عاصم، قال: سألت أنس بن مالك عن القنوت، فقال: قد كان القنوت قلت: قبل الركوع أو بعده؟ قال: قبله، قال: فإن فلانا أخبرني عنك أنك قلت بعد الركوع، فقال: «كذب إنما قنت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد الركوع شهرا، أراه كان بعث قوما يقال لهم القراء، زهاء سبعين رجلا، إلى قوم من المشركين دون أولئك، وكان بينهم وبين رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد، فقنت رسول الله صلى الله عليه وسلم شهرا يدعو عليهم»".

(صحیح البخاری، ابواب الوتر، باب القنوت قبلہ و بعدہ، رقم الحدیث:1002، ج:2، ص:26، ط:دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: عاصم بیان کرتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دعائے قنوت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دعائے قنوت پڑھی جاتی تھی، میں نے پوچھا رکوع سے پہلے یا اس کے بعد ؟ انہوں نے کہا رکوع سے پہلے، عاصم نے کہا کہ فلاں نے مجھ سے آپ کے متعلق بیان کیا کہ آپ بعد رکوع کے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا وہ جھوٹا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کے بعد ایک مہینہ تک دعا قنوت پڑھی اور میں سمجھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقریبا ستر آدمیوں کو جنہیں قرّاء کہا جاتا تھا مشرکوں کی طرف بھیجا تھا یہ لوگ ان کے سوا تھے جن پر آپ نے بددعا فرمائی تھی اور ان کے درمیان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے درمیان معاہدہ تھا پھر (عہد شکنی کی بناء پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعائے قنوت پڑھی اور ان پر بددعا کی۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله وقنت في ثالثته قبل الركوع أبدا) لما أخرجه النسائي عن أبي بن كعب «أنه - عليه الصلاة والسلام - كان يقنت قبل الركوع» وما في حديث أنس من «أنه - عليه السلام - قنت بعد الركوع» فالمراد منه أن ذلك كان شهرا منه فقط بدليل ما في الصحيح عن عاصم الأحول سألت أنسا عن القنوت في الصلاة قال نعم قلت أكان قبل الركوع أو بعده قال قبله قلت فإن فلانا أخبرني عنك أنك قلت بعده قال كذب إنما «قنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بعد الركوع شهرا» وظاهر الأحاديث يدل على القنوت في جميع السنة".

(کتاب الصلوۃ، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:43، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں