بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعائے گنج العرش کا پڑھنا


سوال

دعا گنج العرش کے بارے میں بزرگانِ  دین کیا کہتے ہیں ؟ اور جو روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت  جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا سیکھائی، کیا درست ہے؟

جواب

دعائے گنج العرش کے  الفاظ  میں کوئی شرکیہ یا خلافِ شریعت لفظ تو نہیں ہے، اس لحاظ سے  کسی کا دل چاہے تو پڑھنے  میں حرج بھی نہیں ہے، لیکن اس کی جو فضیلتیں لکھی گئی ہیں، مثلاً  ان دعاؤں کے پڑھنے سے تمام کام انجام پذیر ہو جاتے ہیں، رزق میں وسعت ہوگی،دین و دنیا کےمنافع ہوں گے، مشکلات حل ہو جائیں گی،ہر قسم کے مرض سے شفایاب ہوں گے اور ان فضیلتوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی کی گئی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کو سکھائی تھی ، جب کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدین، تابعین تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین میں سے کسی سے بھی یہ فضیلتیں ثابت نہیں اور نہ ہی یہ دعائیں منقول ہیں،بلکہ یہ ساری کی ساری فضیلتیں لوگوں نے اپنی طرف سے  گھڑ کر بیان کی ہیں؛  اس لیے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین یا ائمہ مجتہدین رحمھم اللہ  کی طرف منسوب کرنا یا ان سے منقول سمجھ کر پڑھنا اور ان کی فضیلتوں کو بھی منقول اور مروی سمجھ کر پڑھنا درست نہیں  ہے۔

"عن أبي هریرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلّی الله علیه و سلّم: ”من کذب عليّ متعمّدًا، فلیتبوأمقعدہ من النار.“

(صحیح مسلم: مقدمہ،النسخة الہندیة ٧/١،بیت الافکار،رقم:٣،صحیح البخاری:باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،النسخة الہندیة،٢١/١،رقم:١٠٧)

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کرے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ ( از مولانا محمد یوسف لدھیانوی  رحمہ اللہ)  میں ہے:

’’عہدنامہ، دُعائے گنج العرش، دُرود تاج وغیرہ کی شرعی حیثیت

س… میں نے اربعین نووی پڑھی جس کے صفحہ:۱۶۸ پر دُعائے گنج العرش، دُرود لکھی، عہدنامہ، وغیرہ کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ میں چند دُعاوٴں کو آپ کی رائے شریف کی روشنی میں دیکھنا چاہتا ہوں، ان دُعاوٴں کے شروع میں جو فضیلت لکھی ہوئی ہے، اس سے آپ بخوبی واقف ہوں گے، زیادہ ہی فضیلت ہے جو تحریر نہیں کی جاسکتی، کیا یہ لوگوں نے خود تو نہیں بنائیں؟

آپ صرف یہ جواب دیں ان میں سے کون سی دُعا قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور کون سی نہیں؟ اگر ثابت ہے تو جو شروع میں فضیلتیں قرآن و حدیث سے ثابت ہیں؟ اگر نہیں تو کیا ہم کو ان دُعاوٴں کو پڑھنا چاہیے یا کہ نہیں؟ کیا یہ دُشمنانِ اسلام کی سازش تو نہیں؟

دُعائیں مندرجہ ذیل ہیں:

۱:-وصیت نامہ۔ ۲:- دُرود ماہی۔ ۳:- دُرود لکھی۔ 

۴:-دعائے گنج العرش۔ ۵:-دُعائے جمیلہ۔ ۶:-دُعائے عکاشہ۔

۷:- عہدنامہ۔ ۸:- دُرود تاج۔ ۹:- دُعائے مستجاب۔

ج… ”وصیت نامہ“ کے نام سے جو تحریر چھپتی اور تقسیم ہوتی ہے،وہ تو خالص جھوٹ ہے، اور یہ جھوٹ تقریباً ایک صدی سے برابر پھیلایا جارہا ہے، اسی طرح آج کل”معجزہ زینب علیہا السلام“ اور ”بی بی سیدہ  کی کہانی“ بھی سو جھوٹ گھڑ کر پھیلائی جارہی ہے۔

دیگر دُردو و دُعائیں جو آپ نے لکھی ہیں، وہ کسی حدیث میں تو وارِد نہیں، نہ ان کی کوئی فضیلت ہی احادیث میں ذکر کی گئی ہے، جو فضائل ان کے شروع میں درج کیے گئے ہیں، ان کو صحیح سمجھنا ہرگز جائز نہیں، کیوں کہ یہ خالص جھوٹ ہے، اور جھوٹی بات آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا وبالِ عظیم ہے۔ جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے، یہ بات تو قطعی ہے کہ یہ الفاظ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودہ نہیں، بلکہ کسی شخص نے محنت و ذہانت سے ان کو خود تصنیف کرلیا ہے، ان میں سے بعض الفاظ فی الجملہ صحیح ہیں، اور قرآن و حدیث کے الفاظ سے مشابہ ہیں، اور بعض الفاظ قواعدِ شرعیہ کے لحاظ سے صحیح بھی نہیں، خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات تو کیا ہوتے!

یہ کہنا مشکل ہے کہ ان دُعاوٴں اور دُرود کا رواج کیسے ہوا؟ کسی سازش کے تحت یہ سب کچھ ہوا ہے یا کتابوں کے ناشروں نے مسلمانوں کی بے علمی سے فائدہ اُٹھایا ہے؟ ہمارے اکابرین ان دُعاوٴں کے بجائے قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی کے منقول الفاظ کو بہتر سمجھتے ہیں، اور اپنے متعلقین اور احباب کو ان چیزوں کے پڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں‘‘۔

( ٣ / ٥١٥، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں