" اَللّٰهُمَّ يَا فَارِجَ الْهَمِّ، يَا كَاشِفَ الْغَمِّ فَرِّجْ هَمِّيْ وَ يَسِّرْ أَمْرِيْ وَ ارْحَمْ ضَعْفِيْ وَ قِلَّةَ حِيْلَتِيْ وَ ارْزُقْنِيْ مِنْ حَيْثُ لَا أَحْتَسِبُ."
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے بھی اس دعا کو دوسروں تک پہنچایا اللہ تعالی اس کے غموں کو بھی اس سے دور فرمادے گا۔
کیا یہ حدیث درست ہے؟
اس طرح کی دعا تو احادیث میں موجود ہے اور یہ فضیلت بھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی برکت سے پریشانیوں کو دور فرماتے ہیں ، لیکن کسی دوسرے کو پہنچانے والے کی تکلیف کو دور کرتے ہیں ، اس کا ذکر حدیث میں موجود نہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201336
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن