بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعا مانگتے ہوئے ہاتھ اٹھانے کی مقدار


سوال

دعا مانگتے ہوئے ہاتھ کس قدر اٹھانے چاہییں؟

جواب

دعا میں چوں کہ اللہ عزّ وجلّ کے سامنے اپنی عاجزی اور تواضع دکھانا  مقصود ہے؛ لہذا ہیئت ایسی ہونی چاہیے جس سے عاجزی اور انکساری نمایاں ہو، نیز سنجیدہ و باوقار وضع ہو،لہذا دعا مانگتے وقت ہاتھ سینے تک یا کاندھے تک اٹھانے چاہییں اور ہتھیلیوں کے درمیان معمولی فاصلہ ہو۔

آپ ﷺ سے سینہ تک ہاتھ اٹھانا بھی ثابت ہے، اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ دعا میں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کاندھوں کی محاذات تک اٹھاتے تھے، اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ رسول اللہ ﷺ دعا میں اپنے ہاتھ اتنے بلند کرتے تھے کہ آپ ﷺ  کے بغل کی سفیدی ظاہر ہوتی تھی۔

درحقیقت اس بارے میں روایات مختلف ہیں، اہلِ علم نے ان میں یہ تطبیق دی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا عمومی معمول دعا میں سینے تک ہاتھ اٹھانے کا رہا ہے، البتہ تضرع کے خاص مواقع پر قدرے بلند کرنا، یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں چہرے کی سیدھ تک اٹھانا  بھی منقول ہے۔بہرحال دعا کرنے والے  کے لیے ادب یہی ہے کہ عمومی احوال میں یوں ہاتھ اٹھائے کہ ہتھیلی سینے کی سیدھ میں ہو، البتہ انگلیاں اگر کاندھے تک ہوجائیں تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، ہاتھ اٹھانے میں مبالغہ کرنا اور پیشانی یا سر تک بلند کرلینا پسندیدہ نہیں ہے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا معمول بنالینے پر نکیر فرمائی ہے، ہاں! تضرع کا خاص موقع یا کیفیت ہو، (مثلاً: استسقا کے موقع پر، میدان عرفہ میں، یا غیر اختیاری کیفیت بن جائے) اور ہاتھ اوپر تک اٹھائے تو اس میں حرج نہیں ہے، بلکہ ایسے مواقع پر روایات سے ثابت بھی ہے۔ 

مصنف عبد الرزاق میں ہے:

عن الزھري  قال: كان رسول الله  ﷺ یرفع یدیه عند صدره في الدعاء،ثم یمسح بهما وجهه.

بخاری شریف میں ہے:

عن أبي موسی رضي الله عنه قال: دعا النبي ﷺ بماءٍ فتوضأ به، ثم رفع یدیه فقال: اللهم اغفر لعبید أبي عامر، ورأیت بیاض إبطیه. (حدیث :6383)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144111201736

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں