بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

دعاکی جلدی قبولیت،زیارۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوربعض انفرادی اعمال کابیان


سوال

1-اللہ  تعالی سے دعاجلد قبول کروانے کے لیے کیا کروں؟

2-میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنا چاہتاہوں،اس کے لیے کیا کروں؟

3-میں اکثر اوقات رات گھر میں کچھ اس طرح تہجد پڑھتا ہوں،پہلے منزل یا قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہوں،پھرعشاء کی نماز پڑھتا ہوں،پھردورکعت صلاۃ التوبہ پڑھتا ہوں،پھردورکعت صلاۃ الحاجت پڑھتا ہوں،پھر شکرانہ کی دورکعت پڑھتا ہوں،پھردورکعت تہجد پڑھتاہوں،اگریہ ترتیب صحیح ہےتومزید مؤثر بنانے کے لیےاورکس چیز کا اضافہ کروں ذراراہ نمائی فرمادیں۔

جواب

1۔واضح رہے ،دعاایک مستقل عبادت ہے اورعبادت اللہ تعالی کے نزیک وہ قابل قبول ومعتبرہے جو اپنی مخصوص شرائط کی رعایت کے ساتھ ادا ہوتودعابھی اگراپنی (مندرجہ ذیل )شرائط کے ساتھ مانگی جائے تواللہ تعالی کی رحمت سے امیدہے کہ اسے جلدی قبول کرلیں۔ احادیث مبارکہ میں واضح طورپریہ مذکورہے کہ  والد كی دعااپنی اولادكےليے،مسافركی دعا،مظلوم كی دعا،اسم اعظم سے مانگی گئی دعااورمسلمان كی اپنے مسلمان بھائی کے لیےپس پشت دعا کواللہ تعالی براہ راست جلدی قبول کرلیتے ہیں اسی طرح نیک صالح آدمی کی دعاجبکہ خوب خشوع اورگڑگڑاکرمانگی گئی ہوتواسے بھی اللہ تعالی جلدی قبول کرلیتے ہیں ۔شرائط دعایہ ہیں :

1-حرام کھانے سے بچنا2-دعاکی قبولیت میں کسی مصلحت کی وجہ سے اگرتاخیرہوگئی تومایوس نہ ہونا3-دعاکرنے والے کومکمل یقین ہوکہ اللہ تعالی ہی اس کی حاجت پورا کرنے پرقادرہیں 4-دعادل واخلاص نیت کے ساتھ ہو5-لاپرواہی اورغفلت کے ساتھ نہ ہو6-دعاایسی ہوجوشرعاجائزہو

ابن عطاء رحمہ اللہ تعالی فرماتےہیں کہ دعاکے اپنےارکان،پر،اسباب اوراوقات ہیں ،تودعاکے ارکان  دل کادھان اورخضوع وخشوع ہےاوراس کے پرسچی دعامانگناہےاوراس کے اسباب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درودپڑھناہےاوراس کےاوقات  سحری کے اوقات ہیں ۔

نیزدعااگرمخصوص اوقات میں مانگی جائے مذکورہ شرائط کےساتھ توامید کی جاسکتی کہ اللہ تعالی اسے جلدی قبول فرمائیں گے۔وہ اوقات درجہ ذیل ہیں۔

1۔سحری وافطاری کےاوقات میں 2۔فرض نمازوں کے بعد3۔آذان اوراقامت کے درمیان کےاوقات میں4۔ظہراورعصرکےدرمیانی اوقات میں 5۔حالت سفر،مجبوری اوربیماری میں 6۔بارش برسنے کے اوقات میں 7حالت جنگ میں صف بندی کے وقت میں8جمعہ کےدن،عرفہ کےدن

تفسیرقرطبی میں ہے:

"فمن شرط الداعي أن يكون عالما بأن لا قادر على حاجته إلا الله..وأن يدعو بنية صادقة ..وحضور قلب..وأن يكون مجتنبا لأكل الحرام..وألا يمل من الدعاء..أن يكون من الأمور الجائزة الطلب والفعل شرعا.وقال ابن عطاء: إن للدعاء أركانا وأجنحة وأسبابا وأوقاتا.فأركانه حضور القلب والرأفة والاستكانة والخشوع، وأجنحته الصدق، ومواقيته الأسحار، وأسبابه الصلاة على محمد صلى الله عليه...وللدعاء أوقات وأحوال يكون الغالب فيها الإجابة، وذلك كالسحر ووقت الفطر، وما بين الأذان والإقامة، وما بين الظهر والعصر في يوم الأربعاء، وأوقات الاضطرار وحالة السفر والمرض، وعند نزول المطر والصف في سبيل الله".

(سورة البقرة،الآية:186،ج:2،ص:311،ط:دارالكتب المصرية)

المفاتیح فی شرح المصابیح میں ہے:

"‌اعلم ‌أن ‌سرعة ‌قبول ‌الدعاء إنما تكون لصلاح الداعي، أو لتضرعه في الدعاء".

(كتاب الدعوات في بدايته ،ج:3،ص:131،ط:دارالنوادر- وزارة الاوقاف الكويتية-)

2۔خواب میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت  کاتمناہرمسلمان کے دل میں ہوناچاہیےاوراس مقصد کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل چند امورکا اہتمام بھی کرناچاہیے ہےان شاءاللہ مطلوب کے حصول میں فائدہ ہوگا

1۔اتباع سنت2۔درود شریف کی خوب کثرت3۔باوضوہوکرسونا4۔سوتے وقت سنت کے طریقے پر سونااوردل میں زیارت کی خوب تمناکرنا۔

ہمارےبعض اکابرعلماءکرام رحمھم اللہ نےبعض درود شریف بطورخاص  اپنی تجربات کی روشنی میں تحریرفرمائیں ہیں کہ اس کی برکت سے اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب کرتےہیں۔

حضرت اقدس اشرف علی التھانویؒ اپنی کتاب زاد السعید میں لکھتے ہیں کہ "سب سے لذیذتراورشیریں ترخاصیت درودشریف کی یہ ہے کہ اس کی بدولت عشاق کوخواب میں حضور پرنورصلی اللہ علیہ وسلم کی دولت زیارت میسرہوتی ہے۔بعض درودوں کوبالخصوص بزرگوں نے آزمایاہے،شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نےکتاب"ترغیب اہل السعادة میں لکھاہے کہ شب جمعہ میں دورکعت نمازنفل پڑھےاورہررکعت میں گیارہ بارآیۃ الکرسی اورگیارہ بارقل ھواللہ احداوربعدسلام سوباریہ درودشریف پڑھے ان شاءاللہ تین جمعے نہ گزرنے پاویں گے کہ زیارت نصیب ہوگی۔وہ درودشریف یہ ہے: "الھم صل علی محمد النبی الامی واٰلہ اصحابہ وسلم" (زادالسعیدص:16،ط:انجمن احیاءالسنۃ)۔

ان اعمال کے باوجود بھی اگرزیارت نصیب نہ ہوتوبندے کوغمگین نہیں ہوناچاہیےبلکہ برابرمذکورہ اعمال کرتے رہناچاہیے  اوردل  میں  شوق بھی برقراررہے اوراپناظاہروباطن کوگناہوں سے بچائے تاکہ  اتباع سنت پرمداومت نصیب ہواوریہی اصل اورمطلوب ہے۔

3۔نوافل کی مذکورہ ترتیب  بظاہرصحیح ہے تاہم اس کولازمی نہیں سمجھناچاہیےاورنہ ہی فرض نمازگھرپرپڑھناچاہیےبلکہ عشاءکی نمازبھی دیگرنمازوں کی طرح باجماعت اداکی جائے۔ جماعت کے ساتھ نمازپڑھناسنت مؤکدہ اورواجب کے قریب ہے، نیز عشاء کی نماز بغیر عذر کے آدھی رات تک مؤخر کرنا مکروہ تحریمی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے۔  اور تہجد کا افضل  وقت  رات کا آخری  تہائی  ہے،باقی ان جیسے انفرادی اعمال کومزید بہتربنانے کےلیے مناسب یہ ہے کہ کسی نیک صالح ،متقی وپرہیزگارشخص کے ہاتھ پربیعت کی جائےپھران کی ہدایات کے مطابق عمل کیاجائے۔

الجوھرۃ النیرۃ میں ہے:

"والجماعة سنة مؤكدةأي قريبة من الواجب ..وإنما قلنا إنها سنة لقوله عليه السلام «الجماعة من سنن الهدى لا يتخلف عنها إلا منافق»..وإذا ثبت أنها سنة مؤكدة فإنها تسقط في حال العذر مثل المطر والريح في الليلة المظلمة وأما بالنهار فليست الريح عذرا وكذا مدافعة الأخبثين أو أحدهما أو كان إذا خرج يخاف أن يحبسه غريمه في الدين أو كان يخاف الظلمة أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة".

(كتاب الصلاة،باب:صفة الصلاة،ج:1،ص:59،ط:المطبعة الخيرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں