بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعائے قنوت کی تکبیر میں ہاتھ نہ اٹھانے اور فرض کی آخری دو رکعتوں میں سورت ملانے سے نماز کا حکم


سوال

 میں وتر کی نماز میں تکبیر کہتے وقت دعائے قنوت سے پہلے ہاتھ نہیں کھڑا کرتی تھی ،اس وقت مجھے معلوم نہ تھا تو کیا اب مجھے ساری نمازیں وتر کی لوٹانی پڑیں گی؟ اور مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورۃ نہیں ملاتے اور میں ملا دیا کرتی تھی تو اب کیا ان نمازوں کی بھی قضاء کرنی ہوگی ؟برائے مہربانی بتا دیں۔

جواب

واضح رہے کہ وتر  کی نماز  میں دعاءِ  قنوت سے پہلے تکبیر کہنا واجب ہے، البتہ ہاتھ اٹھانا سنت ہے  واجب نہیں،لہذا صورت ِ مسئولہ میں سائلہ نے جتنی وتر کی نمازیں دعائے قنوت سے پہلے ہاتھ اٹھائے بغیر پڑھی ہیں وہ ادا ہوگئی ہیں ،اس کے لوٹانے کی ضرورت نہیں ،البتہ آئندہ کے لیے وتر کی تکبیر کہتے وقت ہاتھ اٹھایا کرے۔

اور چار رکعات والی فرض نماز کی آخری دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ سورت نہ ملانا  سنت ہے، واجب نہیں ؛ لہٰذا چار رکعات والی فرض نماز پڑھتے ہوئے آخری دو رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے سے نماز ہوگئی ،اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ويكبر قبل ركوع ثالثته رافعا يديه) كما مر ثم يعتمد، وقيل كالداعي (وقنت فيه)

(قوله ويكبر) أي وجوبا وفيه قولان كما مر في الواجبات، وقدمنا هناك عن البحر أنه ينبغي ‌ترجيح ‌عدمه.

(قوله رافعا يديه) أي سنة إلى حذاء أذنيه كتكبيرة الإحرام، وهذا كما في الإمداد عن مجمع الروايات لو في الوقت، أما في القضاء عند الناس فلا يرفع حتى لا يطلع أحد على تقصيره. اهـ".

(کتاب الصلاۃ،باب الوتر والنوافل،ج؛2،ص:6،سعید)

فتاوی شامی میں ہے :

"(واكتفى) المفترض (فيما بعد الأوليين بالفاتحة) فإنها سنة على الظاهر، ولو زاد لا بأس به (وهو مخير بين قراءة) الفاتحة وصحح العيني وجوبها (وتسبيح ثلاثا) وسكوت قدرها، وفي النهاية قدر تسبيحة، فلا يكون مسيئا بالسكوت (على المذهب) لثبوت التخيير۔۔۔
(قوله واكتفى المفترض) قيد به لأنه في النفل والواجب تجب الفاتحة والسورة أو نحوها (قوله على الظاهر) أي ظاهر الرواية. وفيه كلام يأتي قريبا (قوله ولو زاد لا بأس) أي لو ضم إليها سورة لا بأس به لأن القراءة في الأخريين مشروعة من غير تقدير والاقتصار على الفاتحة مسنون لا واجب فكان الضم خلاف الأولى وذلك لا ينافي المشروعية، والإباحة بمعنى عدم الإثم في الفعل والترك كما قدمناه في أوائل بحث الواجبات، وبه اندفع ما أورده في النهر هنا على البحر من دعوى المنافاة".

(کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ،ج:1،ص:511،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں