دعائے انس کی اسنادی حیثیت کیا ہے؟ برائے مہربانی دعا ئے انس مکمل حدیث و مکمل الفاظ کے ساتھ بتا دیجیے۔
واضح رہے کہ کتبِ اَدِعیہ میں سے"الدعاء للطبراني"، عمل اليوم والليلة لابن السني"،کتبِ سِیَر میں سے"الخصائص الكبرى"، "سبل الهدى والرشاد"،کتبِ تاریخ میں سے "تاريخ دمشق"،"المنتظم في تاريخ الملوك والأمم"، "مرآة الزمان في تواريخ الأعيان"ودیگر کتب میں دعائے انس، پانچ مختلف اسانید سے الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ مذکور ہے۔
"عمل اليوم والليلة"میں ’’دعائے انس‘‘ سے متعلق مکمل تفصیل درج ذیل ہے:
"أخبرنِيْ محمّد بنُ أحمد بنِ عُثمانَ، حدّثنا إبراهيم بنُ نَصْرٍ، ثنا الحسن بنُ بِشْرِ بنِ سَلْمٍ، ثنا أبِيْ عنْ أبان بنِ أبِيْ عيّاشٍ عنْ أنس بنِ مالكٍ -رضي الله عنه- قالَ: كتبَ عبدُ الملكِ إِلَى الحجّاج بنِ يوسُفَ أنْ انْظُرْ إِلَى أنس بنِ مالكٍ خادمِ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم- فأَدْنِ مجلِسَه، وأحسِنْ جائِزتَه، وأكرِمْه، قالَ: فأتيتُه، فَقالَ لِيْ ذاتَ يومٍ: يَا أبَا حمزةَ، إِنِّي أَرِيْدُ أنْ أعرِضَ عليكَ خيلِيْ، فَتُعْلِمَنِيْ أينَ هِي مِنَ الخيلِ الّتِيْ كانتْ معَ رسولِ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-، فَعرضَها، فقلتُ: شتّان مَا بينَهما، فَإِنّها كانتْ أَرواثُها وأَبوالُها وأَعلافُها أجراً، فَقالَ الحجّاجُ: لَوْلَا كتابُ أميرِ المؤمنِيْنِ فِيْكَ لَضَرَبْتُ الّذِيْ فِيْهِ عيْناكَ، فقلتُ: مَا تقدِرُ علَى ذلكَ، قالَ: ولِمَ؟ قلتُ: لِأنّ رسولَ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم- علّمَنِيْ دُعاءً أقولُه، لَا أخافُ معهُ مِنْ شيطانٍ ولَا سُلطانٍ ولا سبُعٍ، قالَ: يَا أبَا حمزةَ، علِّمْهُ لِابنِ أخِيْكَ محمّد بنِ الحجّاج، فأبيتُ علَيْه، فَقالَ لِابْنِه: أبتْ عمُّك أنساً، فَاسْأَلْهُ أنْ يُعلِّمَك ذلكَ، قالَ أبانُ: فَلمّا حَضَرَتْهُ الوفاة دعانِيْ، فقالَ لِيْ: يَا أبَا حمزةَ: إنّ لكَ إِلِيَّ انقطاعاً، وقَدْ وجبتْ حُرْمَتُكَ، وإِنِّي مُعلِّمُك الدُّعاءَ الّذِيْ علّمَنِيْ رسولُ اللهِ -صلّى الله عليه وسلّم-، فَلَا تُعَلِّمْهُ مَنْ لَا يَخافُ اللهَ-عزّ وجلّ - أوْ نحوَ ذلكَ، قالَ: يقولُ: "اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِيْ وَدِينِيْ، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ أَعْطَانِيْ رَبِّيْ، بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ، بِسْمِ اللَّهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ، بِسْمِ اللَّهِ افْتَتَحْتُ، وَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ، اللَّهُ اللَّهُ رَبِّيْ، لَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا، أَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ بِخَيْرِكَ مِنْ خَيْرِكَ الَّذِي لَا يُعْطِيهُ أَحَدٌ غَيْرُكَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، اجْعَلْنِيْ فِي عِيَاذِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ سُلْطَانٍ، وَمِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْتَرِسُ بِكَ مِنْ شَرِّ جَمِيعِ كُلِّ ذِي شَرٍّ خَلَقْتَهُ، وَأَحْتَرِزُ بِكَ مِنْهُمْ، وَأُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيَّ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ} [الإخلاص: 2] ، وَمِنْ خَلْفِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَمِينِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ فَوْقِي مِثْلَ ذَلِكَ".
(عمل اليوم والليلة، 1/307، رقم:346، ط: دار القبلة للثقافة الإسلامية)
ترجمہ:
’’ابان بن ابی عیاش سے روایت ہے کہ (حضرت) انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عبد الملک نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا کہ انس بن مالک خادم ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر توجہ دو، اُنہیں اپنی مجلس میں قریب کرو، اُن کا وظیفہ عمدہ مقرر کرو، اُن کا اعزاز و اکرام کرو۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اُس کے پاس آیا، تو اُس نے ایک دن مجھ سے کہا: اے ابو حمزہ! میں آپ کے سامنے اپنےگھوڑے پیش کرنا چاہتا ہوں، تاکہ آپ مجھے بتائیں کہ یہ گھوڑے اُن گھوڑوں کے مقابلے میں کس درجہ کے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، چنانچہ حجاج نےاپنے گھوڑے (میرے سامنے) پیش کیے تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑوں اور تیرے اِن گھوڑوں کے درمیان تو بہت فرق ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھوڑوں کے لید، پیشاب اور کُھر میں اجر تھا، (یہ جواب سن کر) حجاج نے کہا: اگر تمہارے بارے میں امیر المومنین (عبد الملک بن مروان) کی طرف سےخط نہ آیا ہوتا تو میں تمہاری اُس چیز کو مارتا جس میں تمہاری دونوں آنکھیں ہیں۔ میں نے کہا: تم ایسا نہیں کرسکتے ۔ حجاج نے کہا: کیوں؟! میں نے کہا: اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک دعا سکھائی ہے جسے میں پڑھتا ہوں ، میں اس دعاء کے ہوتے ہوئے کسی شیطان، کسی بادشادہ اور کسی درندے کا خوف نہیں رکھتا، حجاج نے کہا: اے ابو حمزہ! وہ دعاء اپنے بھتیجے محمد بن حجاج کو بھی سکھا دو، میں نے اس کو سکھانے سے انکار کردیا تو حجاج نے اپنے بیٹے سے کہا: تمہارے چچا انس نے (تمہیں وہ دعاء سکھانے سے) انکار کردیا، تم خود اُن سے در خواست کردو کہ وہ تمہیں وہ دعاء سکھادیں،(دوسری روایت میں ہے کہ حجاج نے اپنے بارے میں کہا تھا: اے ابو حمزہ! وہ کلمات مجھے بھی سکھا دو ، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، میں ہرگز وہ کلمات تمہیں نہیں سکھاؤں گا ،کیوں کہ تم اس کے اہل نہیں ہو)۔(حدیث کے راوی) ابان کہتے ہیں: جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو اُنہوں نے مجھے بلایا اور مجھ سے کہا: اے ابو حمزہ!(اب ) تمہاری مجھ سے جدائی( کا وقت) ہے، اور تمہارا اعزاز واکرام ( بھی مجھ پر) واجب ہے، میں تمہیں وہ دعاء سکھادیتا ہوں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تھی، تم یہ دعاء اُس شخص کو مت سکھانا جسے اللہ عز وجل کا خوف نہ ہو، یا اس جیسے الفاظ ارشاد فرمائے تھے،( دوسری روایت میں ہے کہ ابانکے استفسار پر آپ رضی اللہ عنہ نے اُسے یہ کلمات سکھائے ، اور فرمایا: انہیں صبح و شام پڑھا کر و اللہ تعالیٰ تمہیں ہر آفت سے محفوظ رکھے گا)۔ابان کہتے ہیں: پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات ارشاد فرمائے:
"اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى نَفْسِيْ وَدِينِيْ، بِسْمِ اللَّهِ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ أَعْطَانِيْ رَبِّيْ، بِسْمِ اللَّهِ خَيْرِ الْأَسْمَاءِ، بِسْمِ اللَّهِ الَّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ دَاءٌ،بِسْمِ اللَّهِ افْتَتَحْتُ، وَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ، اللَّهُ اللَّهُ رَبِّيْ، لَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا، أَسْأَلُكَ اللَّهُمَّ بِخَيْرِكَ مِنْ خَيْرِكَ الَّذِي لَا يُعْطِيهُ أَحَدٌ غَيْرُكَ، عَزَّ جَارُكَ، وَجَلَّ ثَنَاؤُكَ، وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ، اجْعَلْنِيْ فِي عِيَاذِكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ سُلْطَانٍ، وَمِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْتَرِسُ بِكَ مِنْ شَرِّ جَمِيعِ كُلِّ ذِي شَرٍّ خَلَقْتَهُ، وَأَحْتَرِزُ بِكَ مِنْهُمْ، وَأُقَدِّمُ بَيْنَ يَدَيَّ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، اللَّهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ} [الإخلاص: 2] ، وَمِنْ خَلْفِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَمِينِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَعَنْ يَسَارِي مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ فَوْقِي مِثْلَ ذَلِكَ".
مذکورہ بالا روایت کی سند میں ابان بن ابی عیاش متروک ہے ، تاہم دیگر راویوں کی متابعت کی وجہ سے اس کے ضعف کی تلافی ہوجاتی ہے، اس لیے اس پر عمل کرنے کی گنجائش ہے،یہی وجہ ہے کہ امام طبرانی اور علامہ ابن السنی رحمہما اللہ نے اَدِعیہ پر مشتمل اپنی کتابوں میں اسے بطورِ معمول کے ذکر کیا ہے۔
"تقريب التهذيب"میں ہے:
"أبان ابنُ أبِيْ عيّاشٍ، فيروزُ البصريِّ، أبو إسماعيلَ العبديُّ، متروكٌ، مِنَ الخامسةِ، ماتَ في حُدودِ الأربعِيْنَ".
(تقريب التهذيب، حرف الألف، 1/87، رقم:142، ط: دار الرشيد - سوريا)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102862
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن