بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو یا تین قسمیں کھالی ہوں تو اس کا کفارہ کیا ہے؟


سوال

میری عمر 28  سال ہے، میں نے   ان جانے میں شاید 2، 3 قسم کھائی  ہیں،  ابھی یہ عرض کرنی ہے کہ اس کا کیا کفارہ ہے؟

جواب

اگر آپ نے مستقبل میں  کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے پر قسم کھائی اور  بعد میں وہ قسم توڑ دی ہو تو اگر وہ ایک ہی کام ہو تو آپ پر ایک ہی کفارہ لازم ہوگا، اور اگر  مختلف کاموں پر دو ، تین قسمیں کھائی ہوں  تو ہر ایک کی طرف سے الگ کفارہ دینا لازم ہوگا۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دیں  یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دیں ( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم ) اور اگر "جو"  دیں تو  اس کا دو گنا  (تقریباً ساڑھے تین کلو) دیں،  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دیں۔ اور اگر آپ کی مالی حالت ایسی ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتے ہیں اور نہ کپڑے دے سکتے ہیں تو  ہر کفارے میں مسلسل تین روزے رکھیں، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 714):

"وفي البحر عن الخلاصة والتجريد: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين، والمجلس والمجالس سواء؛ ولو قال: عنيت بالثاني الأول ففي حلفه بالله لايقبل، وبحجة أو عمرة يقبل. وفيه معزياً للأصل: هو يهودي هو نصراني يمينان، وكذا والله والله أو والله والرحمن في الأصح. واتفقوا أن والله والرحمن يمينان، وبلا عطف واحدة.

 (قوله: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية (قوله: وبحجة أو عمرة يقبل) لعل وجهه أن قوله: إن فعلت كذا فعلي حجة، ثم حلف ثانياً كذلك يحتمل أن يكون الثاني إخباراً عن الأول، بخلاف قوله: والله لاأفعله مرتين؛ فإن الثاني لايحتمل الإخبار؛ فلاتصح به نية الأول، ثم رأيته كذلك في الذخيرة. وفي ط عن الهندية عن المبسوط: وإن كان إحدى اليمينين بحجة والأخرى بالله تعالى فعليه كفارة وحجة (قوله: وفيه معزياً للأصل إلخ) أي وفي البحر: والظاهر أن في العبارة سقطاً، فإن الذي في البحر عن الأصل: لوقال: هو يهودي هو نصراني إن فعل كذا، يمين واحدة، ولو قال: هو يهودي إن فعل كذا، هو نصراني إن فعل كذا، فهما يمينان (قوله: في الأصح) راجع للمسألتين: أي إذا ذكر الواو بين الاسمين فالأصح أنهما يمينان سواء كان الثاني لايصلح نعتاً للأول أو يصلح، وهو ظاهر الرواية. وفي رواية يمين واحدة، كما في الذخيرة.

قلت: لكن يستثنى ما في الفتح حيث قال: ولو قال: على عهد الله وأمانته وميثاقه ولا نية له فهو يمين عندنا ومالك وأحمد. وحكي عن مالك يجب عليه بكل لفظ كفارة؛ لأن كل لفظ يمين بنفسه، وهو قياس مذهبنا إذا كررت الواو كما في والله والرحمن والرحيم إلا في رواية الحسن. اهـ. 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201439

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں