بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو طلاق دینے کے بعد رجوع کرنے کا طریقہ


سوال

کیا شوہر بیوی کو  فقط بحث و تکرار اور روکنے کی لیے دو دفعہ طلاق کا لفظ استعمال کرے بغیر طلاق دینے  کی نیت کے تو کیا  طلاق واقع هو جاتی ہے؟ اگر هو جاتی هے تو کیا رجوع کی گنجائش  موجود  ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں شوہر نے کیا الفاظ استعمال کیے ہیں،اس کی مکمل وضاحت نہیں ہے ،اصولی جواب یہ ہے کہ  اگر شوہر نے  بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ   دو طلاق دی ہوں  تو اس سے  بیوی پر  دو”   طلاقِ رجعی  “ واقع ہوجائیں  گی، اور  اس میں  کسی قسم کی نیت کی ضرورت بھی  نہیں  ہے۔

طلاقِ  رجعی کے بعد شوہر  کو بیوی کی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو)  میں رجوع کا حق ہے، اگر عدت کے  دوران رجوع کرلیا  دونوں کا نکاح برقرار رہے گا، اور  رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے زبان سے کہہ دے کہ میں نے رجوع کرلیا،اس سے قولی طور پر رجوع ہوجائے گا،اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ بیوی سے تعلق قائم کرلے یاخواہش و رغبت سے اسے چھوئے یابوسہ لے لے اس سے بھی رجوع ہوجائے گا، لیکن فعلی رجوع مکروہ ہے۔حاصل یہ ہے کہ قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے، البتہ قولی رجوع کرنا اوراس پر گواہان قائم کرنا مستحب ہے۔

 اگر  بیوی کی عدت میں رجوع نہیں کیا ، یعنی  طلاق کے بعد  عدت کی تیسری ماہواری گزرگئی تو اس صورت میں   دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا، مطلقہ  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

         اس کے بعد  اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے  دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں  نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے  رہ سکتے ہیں ، اور دونوں صورتوں میں  آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا حق  باقی رہے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):

"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.

 (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409):

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144212201930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں