بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

DSP فنڈ کا حکم


سوال

 میں فوج کی نوکری کررہا ہوں، دوران سروس ہم سے ماہانہ کچھ رقم جمع ہو تی ہے جس کو DSP فنڈ کہتے ہیں، اس رقم پر سالانہ منافع بھی لگتا ہے۔

برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ:( 1) کیا یہ منافع سود ہے ؟

(2 ) اگر سود میں آ تا ہے تو  کیااس طرح جائز ہے کہ میری لوگوں کے پاس ادھار رقم ہے، میں یہ سود والی رقم ان کو دے کر قرض کی مد میں واپس لے لو ں ، یعنی ان لوگوں کا ادھار ختم ہو جاۓ گا۔

جواب

 واضح رہے کہ  فوج کی طرح دیگر  بعض ادارے بھی اپنے ہر ملازم کو جبراً اس فنڈ کا حصہ بناتے ہیں اور ملازم کو عدمِ شمولیت کا اختیار نہیں دیتے، ہر ماہ تنخواہ دینے سے پہلے ہی  ایک طے شدہ مخصوص شرح کے مطابق   ملازم کی تنخواہ سےجبری کٹوتی کرلی جاتی ہے اور بقیہ تنخواہ ملازم کو دے دی جاتی ہے،اور اس  رقم پر ہر ماہ  محکمہ اپنی طرف  اضافہ سے کرتا ہے، پھر مجموعی رقم  پر  ایک مخصوص رقم سالانہ  سود کے نام سے جمع کرتا ہے ،جو ملازمت کےاخیر میں ملازم کو دی  جاتی ہے۔

 ایسی صورت( جبری کٹوتی) کا حکم یہ ہے کہ یہ فنڈ کمپنی کی طرف سے ملازمین کے لیے تبرع و انعام ہوتا ہے اور ملازمین کے لیے یہ رقم لینا شرعاً جائز ہوتا ہے ،کیوں کہ  یہ  رقم در حقیقت ملازم کی تنخواہ ہی کا حصہ ہے ،نیزملازم نے اپنی رضامندی سے یہ رقم جمع نہیں کروائی، لہٰذا ملازم کے ليے اس رقم کا لینا اوراسے اپنے استعمال میں لانا جائز ہے، یہ رقم  شرعاً سود نہیں،  اگرچہ سود یا کسی اور نام سے دی جائی ،لہٰذا آپ  DSP فنڈ کی  رقم وصول کرکے اپنےاستعمال میں لاسکتے ہیں۔

تبيين الحقائق میں ہے:

"(والأجرة لا تملك بالعقد بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه)...

أي لا تملك الأجرة بنفس العقد سواء كانت الأجرة عينا أو دينا، وإنما تملك بالتعجيل أو بشرط التعجيل أو باستيفاء المعقود عليه وهي المنفعة أو بالتمكن من استيفائه بتسليم العين المستأجرة في المدة."

 (كتاب الإجارة،107/5، ط: المطبعة الکبری الأميرية)

الجوهرة النيرة میں ہے:

"(والأجرة لا تجب بالعقد) أي لا يجب أداؤها؛ لأن العقد ينعقد شيئا فشيئا على حسب حدوث المنافع، والعقد معاوضة، ومن قضية المعاوضة المساواة، وإذا استوفى المنفعة ثبت الملك في الأجرة لتحقق التسوية وكذا إذا شرط التعجيل، أو عجل من غير شرط...
" (قوله: ويستحق بأحد معان ثلاثة إما أن يشترط التعجيل، أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه)."

 (كتاب الإجارة،الأجير المشترك والأجير الخاص،266/1، ط: المطبعة الخیریة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں