دس محرم الحرام کے روزہ میں، کسی نے واجب یا فرض قضا ء کی نیت کی، تو کیا اس کا واجب یا فرض ساقط ہو جائےگا ؟
نفل روزہ الگ ہے اور فرض کی قضا کا روزہ الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے، روزہ میں نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا اور قضا کی نیت کرنے سے وہ قضا کا روزہ ہوگا، ایک روزہ میں نفل اورقضا دونوں کی نیت نہیں کرسکتے ہیں؛ لہذا عاشورہ کے روزوں کے ساتھ،قضا روزوں کی ادائیگی کی نیت کرناصحیح نہیں ہے،اس لیے اگر دس محرم الحرام کے روزہ کی نیت کی ہےتو وہ نفلی روزے ہوں گے قضا کے نہیں ہوں گے، اور اگر ان دنوں میں قضا کی نیت کی ہے تو وہ قضا کے روزے ہوں گے اور اس سے نفلی کا ثواب نہیں ملے گا۔
اگر یہ گمان ہو کہ دس محرم الحرام کے روزے رکھے تو بعد میں قضا روزے رکھنا مشکل ہوگا ،تو پہلے قضا روزے رکھنے چاہیے، بصورتِ دیگردس محرم الحرام میں نفل روزے رکھ لے، اور پھر قضا کرلے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"ولو نوى قضاء رمضان والتطوع كان عن القضاء في قول أبي يوسف، خلافاً لمحمد فإن عنده يصير شارعاً في التطوع، بخلاف الصلاة فإنه إذا نوى التطوع والفرض لايصير شارعاً في الصلاة أصلاً عنده، ولو نوى قضاء رمضان وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، وفي القياس يكون تطوعاً، وهو قول محمد، كذا في الفتاوى الظهيرية."
(كتاب الصوم،باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،ج،2،ص، 299،ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوى ہندیہ میں ہے:
"ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة."
(كتاب الصوم،الباب الأول في تعريفه وتقسيمه وسببه ووقته وشرطه،ج،1،ص،196،ط:دار الفکر)
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"ولو نوى صوم القضاء والنفل أو الزكاة والتطوع أو الحج المنذور والتطوع يكون تطوعاً عند محمد؛ لأنهما بطلتا بالتعارض فبقي مطلق النية فصار نفلاً، وعند أبي يوسف يقع عن الأقوى ترجيحاً له عند التعارض، وهو الفرض أو الواجب."
(کتاب الطلاق ،فصل فی کفارۃ الظھار،ج،3،ص،13،ط:دار الكتاب الإسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100668
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن