بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درود تنجینا کا حکم


سوال

درود تُنْجِینا یا درود تُنَجّینا  پڑھنا جائز ہے کہ نہیں؟ اگر جائز ہے تو ثبوت شرع سے کیا ہے؟ نیز یہ بھی واضح کریں کہ حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے  کہ نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ درود شریف کے بہت سے صیغے اور طریقے منقول ہیں،  علماء نے اس موضوع پر مستقل کتب لکھی ہیں، البتہ یہ ضروری نہیں کہ وہ  تمام کلمات آں حضرت ﷺ سے بعینہٖ منقول ہوں، بلکہ کسی بھی درست مفہوم پرمشتمل کلمات سے درود پڑھ سکتے ہیں اور اس سے حکم کی تعمیل اور درود و سلام پڑھنے کاثواب حاصل ہوجاتاہے،البتہ جو الفاظ خود حضور ﷺ سے منقول ہیں وہ زیادہ بابرکت و باعثِ اجر ہیں۔ 

درودِ تنجینا ان درودوں میں سے نہیں ہے جو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں، بلکہ یہ بزرگوں کے مجربات میں سے ہے،  اور اسے علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے علامہ فاکہانی رحمہ اللہ کی کتاب "الفجر المنیر في الصلوۃ علي البشیر النذیر" کے حوالے سے نقل کیا ہے، اور واقعہ یہ نقل کیا ہے کہ موسی الضریر رحمہ اللہ ایک مرتبہ سمندر میں سفر کررہے تھے کہ طوفان آیا جس کا نام "اقلابیه"  ہے، اور  عام طور پر  اس طوفان میں پھنسنے والے بچتے نہیں ہیں، موسی الضریر نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، آپ علیہ الصلاۃ  و السلام  نے فرمایا کہ کشتی والوں سے کہو کہ وہ یہ درود  پڑھیں،  شیخ جاگے اور لوگوں کو اس درود کے پڑھنے کا کہا تو  تین سو بار ہی  پڑھا تھا کہ اللہ تعالی نے اس مصیبت کو دور کردیا اور اس طوفان سے نجات ملی ۔

 اور علامہ  سخاوی نے اپنی کتاب " القول البدیع في الصلوۃ علي الحبیب الشفیع"میں لکھا ہے کہ ،مجد لغوی نے اپنی سند سے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد حسن بن علی اسوائی کا قول نقل کیا ہے کہ جو آدمی اس درود کو کسی مصیبت یا مسئلہ میں ایک ہزار بار پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کی مصیبت کو دور کردیں گے اور  اس کے کام کو پورا کردیں گے۔درود  کے الفاظ یہ نقل کیے ہیں:

"اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ صَلَاةً تُنْجِیْنَا بِهَا مِنْ جَمِيْعِ الأَهْوَالِ وَالآفَاتِ وَتَقضِيْ لَنَا بِهَا جَمِيْعَ الحَاجَاتِ وَتُطَهِّرُنَا بِهَا مِنْ جَمِيْعِ السَّيِّئَاتِ وَتَرْفَعُنَا بِهَا عِنْدَكَ أَعلَى الدَّرَجَاتِ وَتُبَلِّغُنَا بِهَا أَقْصَى الغَاياَتِ مِن جَمِيعِ الخَيرَاتِ فِي الحَيَاةِ وَبَعدَ المَمَاتِ".

(ص: 435، القول البدیع في الصلاة علی الحبیب الشفیع، ط: دارالیسر)

تاہم چوں کہ  یہ درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے، اس لیے اس کو  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کرسکتے ہیں، البتہ بزرگوں کے مجربات میں سے ہے، اور کوئی شرکیہ کلمہ یا خلافِ شرع جملہ بھی نہیں، اس لیے اس کو  پڑھنا جائز ہے۔

الفجر المنیر في صلوۃ علي البشیر النذیر  "میں ہے:

"أخبرني الشيخ الصالح موسى الضرير أنه ركب في لمركب في البحر الملح قال وقد قدمت علينا ريح تسمى الاقلابية قل من ينجو منها من الغرق فنمت فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول لي قل لأهل المركب أن يقولوا ألف مرة اللهم صل على محمد صلاة تنجينا بها من جميع الأهوال والآفات ‌وتقضي ‌لنا ‌بها جميع الحاجات وتطهرنا بها من جميع السيئات وترفعنا بها عندك أعلى الدرجات وتبلغنا بها أقصى الغايات من جميع الخيرات في الحياة وبعد الممات قال فاستيقظت وأخبرت أهل المركب الرؤيا فصلينا نحو ثلاث مائة مرة ففرج الله عنا وأسكن عنا ذلك الريح ببركة الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم."

(الباب الثالث  فی کیفیة الصلوۃ الخ ،ص:21، ط:دار الکتب العملیة)

القول البديع في الصلاة علي الحبيب الشفيع"میں ہے:

"وساقها المجد اللغوي بإسناده مثل سواء ونقل عقبها عن الحسن بن علي الأسواني قال ومن قالها في كل مهم ونازلة وبلية ألف مرة فرج الله عنه وأدرك مأموله."

(الباب الخامس فی الصلوۃ علیة فی اوقات المخصوصة، ص: 220 ،ط: دارالریان للتراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100097

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں