بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ میں گاہگ کو عدم ملکیت کی وضاحت کردینا


سوال

 اگر میں ایک آنلائن اسٹور بناتا ہوں اور اس ویب سائٹ کے “About” سیکشن میں یہ لکھ دیتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی چیز ہماری اپنی ملکیت نہیں ہے، بلکہ ہم صرف ایک ڈراپشپر ہیں اور پھر اس اسٹور پر کہیں سے بھی تصویر لے کر لگادوں اور آرڈر ملنے پر گاہک سے ایڈوانس پیسے لےکر اسی پیسے سے وہ چیز کسی سپلائر کو آڈر کر کے ڈائرکٹ گاہک کو بھجوادوں جیسے عمومی طور پر ڈراپ شپنگ کی جاتی ہے تو کیا یہ جائز ہوگا؟ خیال رہے کہ زیادہ تر لوگ ویب سائٹ کا “About” سیکشن نہیں دیکھتے۔

جواب

واضح رہے کہ  کسی بھی منقولی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر حسی طور پر  قبضہ کرنے  سے پہلے  آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے،  لہذا صورتِ  مسئولہ  میں سائل  کے لیے یہ جائز نہیں کہ جو چیز اس کی ملکیت اور قبضہ  میں نہ ہو، اس کا محض اشتہار یاتصویر دکھا کر  گاہگ سے اس کا حتمی سودا کر لے ۔

بلکہ اس کے جواز کی صورت یہ ہے کہ  سائل، گاہگ سے   باقاعدہ خرید و فروخت کا معاملہ کرنے کے بجائے  اس سے  فروخت کرنے کا وعدہ کرلے(اور اس کے لیے اپنی ویب سائٹ پہ تعارف(about) کے خانے میں یہ وضاحت کردینا بھی مفید ہے، البتہ اگر اکثر لوگ اس تعارف کو نہ پڑھتے ہوں تو بہتر یہ ہے کہ ویب سائٹ پہ وضاحت کے ساتھ  یہ بتا دیا جائے کہ یہاں آپ چیز براہ راست نہیں خرید سکتے بلکہ آپ چیز پسند کر کے اس کا آرڈر دیں، تو ہم آپ کی مطلوبہ چیز آپ کو فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔)   اور اس وعدہ کے عوض پیشگی رقم لینا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے، اور  اس کے بعد   متعلقہ اسٹور  سے مال خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لے کر  گاہگ  کو فروخت کردے۔    براہ راست سپلائر  کا کسٹمر کو مال پہنچادینا   قبضہ  كے ليے  کافی نہیں ہوگا۔

یا پھر سائل سپلائر   کا کمیشن ایجنٹ بن جائے ، اور چاہے تو اپنی کمیشن رقم یا فیصد میں متعین کرلے  تو اس صورت میں ویب سائٹ پر ان کی اشیاء لگاکر   باقاعدہ کسٹمر کو فروخت کرنا  اور سپلائر  سے  طے شدہ کمیشن لینا بھی جائز ہوگا، اور اس صورت  میں سائل کو آرڈر ملنے  کے بعد سپلائر  کا براہ راست گاہگ  کو سامان پہنچادینا بھی کافی ہوگا۔

     فتاوی شامی میں ہے:

’’إذ من شرط المعقود عليه: أن يكون موجوداً مالاً متقوماً مملوكاً في نفسه، وأن يكون ملك البائع فيما يبيعه لنفسه، وأن يكون مقدور التسليم منح‘‘.

(5/ 58، کتاب البیوع، باب بیع الفاسد، ط: سعید)

تبیین  الحقائق  میں ہے :

"قال رحمه الله: (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام "إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه"۔ رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا". 

(4/ 80،  کتاب البیوع، ط: المطبعة الكبرى الأميرية، بولاق، القاهرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو أعطاه الدراهم، وجعل يأخذ منه كل يوم خمسة أمنان ولم يقل في الابتداء اشتريت منك يجوز وهذا حلال وإن كان نيته وقت الدفع الشراء؛ لأنه بمجرد النية لا ينعقد البيع، وإنما ينعقد البيع الآن بالتعاطي والآن المبيع معلوم فينعقد البيع صحيحا. قلت: ووجهه أن ثمن الخبز معلوم فإذا انعقد بيعا بالتعاطي وقت الأخذ مع دفع الثمن قبله، فكذا إذا تأخر دفع الثمن بالأولى".

(4/ 516، کتاب البیوع، مطلب البیع بالتعاطی، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100651

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں