بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ كے آن لائن کام میں بیع قبل القبض میں خرید و فروخت کا حکم اور اس میں کام کرنے والے فری لانسرز کے لیے شرعی حکم


سوال

1۔  ڈراپ شپنگ کی عمومی صورت میں آن لائن سٹور اپنے قبضے میں کوئی پراڈکٹ نہیں رکھتے بلکہ خریدار کے آرڈر پر براہ راست وہ آرڈر علی ایکسپریس وغیرہ کے سپلائر کو بھیجتے ہیں (یہ بھی ویب ایپ کے ذریعے آٹومیٹک سسٹم سے ہوجاتا ہے) جو متعلقہ پراڈکٹ خریدار کے ایڈریس پر بھیج دیتا ہے،  اس صورت کا کیا حکم ہے؟

2۔  ڈراپ شپنگ کا سارا کام آن لائن ہوتا ہے اور عموماً سٹور مالک فری لانسرز کے ذریعے تمام معاملات سنبھالتے ہیں،  اب اگر ڈراپ شپنگ مذکورہ بالا طریقہ ناجائز ہے تو ایسے سٹورز کے لیے کام کرنے والے فری لانسرز کے لیے کیا حکم ہے؟ سٹور آن لائن بنانا، اشتہار چلانا، پراڈکٹ ڈھونڈنا وغیرہ جیسے کام فری لانسرز کرتے ہیں، ان صورتوں میں فری لانسرز کے لیے کون سا کام کرنے کی گنجائش ہے؟

جواب

1۔سائل نے ڈراپ شپنگ کی جو صورت سوال میں ذکر کی ہے، یہ صورت شرعاً ناجائز ہے کیوں کہ اس میں اسٹور والا وہ چیز اپنے قبضے میں لانے سے پہلے ہی خریدار کو  بیچ دیتا ہے جو بیع قبل القبض (یعنی کسی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے فروخت کرنے) میں داخل ہے اور بیع قبل القبض شرعاً ناجائز ہے، اس سے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ البتہ اگر اسٹور والا وہ چیز آن لائن مارکیٹ سے خرید کر پہلے اپنے قبضے میں لائے، خواہ بذاتِ خود قبضہ کرے یا اس کا وکیل (جوکہ گاہک کے علاوہ ہو)، پھر اس کے بعد اسٹور والا وہ چیز آگے گاہک کو  بیچے تو یہ صورت شرعاً جائز ہوگی (بشرط یہ کہ کوئی دوسری ایسی چیز نہ پائی جائے جس سے معاملہ ناجائز ہوجائے) ۔

2۔ فری لانسر کو اگر معلوم ہے کہ ان کی طرف سے مذکورہ سہولیات میسر کرنے کے بعد وہ مذکورہ ناجائز طریقہ سے خرید و فروخت کریں گے تو اس کا ذمہ دار ڈراپ شپنگ والا ہے، فری لانسر نہیں، باقی فری لانسرز کے لیے جان بوجھ کر ایسا کام کرنے  کی گنجائش ہے،  لیکن نہ کرنا بہتر ہے۔

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله: و من اشترى شيئًا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض ... أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان."

(فتح القدیر، کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، ص:511، ج:6، ط: دار الفکر)

جواہر الفقہ میں ہے:

"ثم السبب علی قسمین قریب وبعید، ثم القریب علی قسمین:

سبب محرک للمعصیة  بحیث لولاہ لما اقدم اقدم الفاعل علی ھذہ المعصیة کسب الاٰلهة الکفار وسبب لیس کذلک ولکنه یعین لمرید المعصیة ویوصله الی ما یھواہ کاحضار الخمر لمن یرید شربه .فالقسم الأول من السبب القریب حرام بنص القرآن،  والقسم الثانی من السبب القریب أعنی مالم یکن محرماوباعثا موصلا محضا فحرمته وان لم تکن منصوصة ولکنه داخل فیه باشتراک العلة و هي الإفضاء الی الشر والمعصیة.

وإن کان سببا بعیدا بحیث لایفضی الی المعصیة علی حالته الموجودۃ بل یحتاج الی احداث صنعة فیه کبیع الحدید من اھل الفتنة وامثالھا فیکرہ تنزیھا".

(ص:450، 451، ج:2، ط:دار العلوم کراچی)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100536

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں