بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ کی ٹریننگ دینے والی کمپنی میں نوکری کرنا


سوال

مجھے ایک آن لائن کام ملا ہے، وہ کمپنی کینیڈا کی ہے جو ڈراپ شپنگ کی ٹریننگ دیتی ہے لوگوں کو( آن لائن اسٹور کھولنا، مصنوعات کی چانچ پڑتال، ڈراپ شپنگ کے لیے تشہیر کرنا)۔ میرا کام سوشل میڈیا پر لوگوں کو میسج کر کے کال بک کروانی ہے۔ کیا میرے لیے ڈراپ شاپنگ کی ٹریننگ دینی والی کمپنی کے لیے کام کرنے سے جو نفع ہوگا وہ حلال ہوگی یا حرام؟

جواب

جواب سے قبل تمہید کے طور پر ڈراپ شپنگ کا حکم جاننا ضرروی ہے۔ ڈراپ شپنگ یعنی سامان کی تصیر دکھا کر سامان بیچ دینا اور سودا کرنے کے بعد سامان خرید کر خریدار کو پہنچا دینا شرعا رست نہیں ہے اور اس طرح خرید و فروخت کا معاملہ بیع باطل ہے کیونکہ اس طریقہ تجارت میں ملکیت سے پہلے سامان بیچا جاتا اور ملکیت سے پہلے سامان بیچنا بیع باطل ہے۔ اس طریقہ  تجارت سے جو منافع حاصل ہوں وہ حلال نہیں ہیں۔اس ڈراپ شپنگ کی جائز صورت یہ  ممکن ہے کہ  جب تک سامان قبضہ میں نہیں ہے تو بیچنے (sale) کے بجائے بیچنے کا وعدہ کرلے (promise to sale) اور پھر وعدہ کرنے کے بعد سامان خرید کر اپنے قبضہ میں لے کر خریدار تک پہنچا دے۔ جب سامان خریدار تک پہنچے گا اور وہ اس کو قبول کرلے گا اس وقت بیع (خرید و فروخت کا معاملہ) شرعا منعقد ہوجائے گا۔ وعدہ کی صورت میں بھی خریداری کے بعد سائل کے لیے قبضہ کرنا ضروری ہے ورنہ پھر معاملہ خراب ہوجائے گا۔

اب سائل جس ادارہ میں مذکورہ نوکری کرتا ہے  اگر تو وہ لوگوں صرف ناجائز طریقہ تجارت کی ٹریننگ دیتا ہے تو پھر مذکورہ ادارہ کو ناجائز طریقہ تجارت کی ٹریننگ کے بدلہ حاصل ہونے والی اجرت ناجائز ہوگی اور سائل کی مذکورہ نوکری چانکہ ان ٹریننگ میں معاون ہے تو سائل کی اجرت بھی حلال نہیں ہوگی۔ اگر مذکورہ ادارہ جائز طریقہ تجارت سکھا تا ہے  اور سکھانے کے لیے جائز ذرائع استعمال کرتا ہے تو  پھر مذکورہ ادارہ کو حاصل ہونے والی اجرت حلال ہوگی اور سائل  چوں کہ اس ٹریننگ میں معاون ہے تو سائل کی اجرت بھی حلال ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم......ومنها القبض في بيع المشترى المنقول."

(کتاب البیوع ،باب اول ج نمبر ۳ ص نمبر ۳،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والبيوع الفاسدة فكلها من الربا."

(فتاوی شامی ، کتاب البیوع ، باب الربا ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۹، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا."

(کتاب الاجارۃ ج نمبر ۴ ص نمبر ۴۱۱،دار الفکر)

أحكام القرآن للجصاص  میں ہے:

"وقوله تعالى وتعاونوا على البر والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(سورۃ مائدۃ آیت نمبر ۲ ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۹۶،دار احیاء التراث)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں