بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ کے کاروبار کا حکم


سوال

ڈراپ شپنگ حرام ہے یا حلال؟ 

جواب

 واضح رہے کہ ڈراپ شپنگ کا عام طریقہ یہ ہے کہ بائع اپنی مصنوعات کی تصاویر  تمام تفصیلات کے ساتھ  اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیاء  کو دیکھ کراپنی پسند کردہ چیز پر کلک کرکے اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے۔ رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے، یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے۔ مبیع کی ادائیگی بعض اوقات کسی کوریئر سروس کے ذریعے کی جاتی ہے اوربعض اوقات کمپنی خود یہ کام کرتی ہے۔ ضروری نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ  آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔
اس طریقۂ کاروبار میں خریدار کا اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا بظاہر قبول ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہے، قبول نہیں، جیسے دکان داراشیاء اپنے اسٹال پر   سجادیتا ہے اوران پر قیمت بھی  لگی ہوتی ہے، مگر وہ اس کی طرف سے  ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے اور جیسے دکان پر دکان دار کا عمل قبول ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کاعمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دکان میں جب خریدارکو ئی چیز اُٹھالیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر  بھاؤ تاؤ ہوتا ہے، اگر چیزوں کو پیش کرنا ایجاب ہوتا تو خریدار کے اُٹھا لینے اور کاؤنٹر پر پیش کرنے کے بعد اسے واپس لینے کا حق نہ ہوتا۔
مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ چیز پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تووہ اسے قبول کرلیتا ہے، یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتا ہے۔
اس طریقہ کے مطابق خرید وفروخت کرنا درست ہے ، البتہ اس میں درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:
۱: انٹرنیٹ پرسونا چاندی یا کرنسی کی خریدوفروخت ہو تو بیعِ صرف کے احکام کی رعایت لازم ہوگی، یعنی ہاتھ در ہاتھ اور نقد ہونا ضروری ہے اور یہ صورت آن لائن خریداری میں ممکن ہی نہیں ، لہٰذا سونا، چاندی اور کرنسی کی آن لائن تجارت نہ کی جائے۔
۲: مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔
۳: کوئی شرطِ فاسد نہ لگائی جائے ۔
۴: صرف تصویر دیکھنے سے خریدار کا خیارِ رؤیت ساقط نہیں ہوگا، لہٰذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو یا دیکھنے کے بعد مشتری کو پسند نہ آئے تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
 ۵: ویب سائٹ پراپنی پروڈکٹ کی تشہیر کے لیے جان دار کی تصویر نہ لگائی جائے۔
۶: اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کرتے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں، جب تک چیز اُن کے قبضے میں نہ آجائے، البتہ وہ وکیل بالشراء (خریداری کے وکیل)کے طورپر معاہدہ کرسکتے ہیں، یعنی صارف (کسٹمر) ویب سائٹ والے کو خریداری کا وکیل بنادے، ویب سائٹ والا وکیل بن کر اس چیز کو مؤکل (صارف) کے لیے خریدے، نیز ایک صورت یہ بھی درست ہے کہ ویب سائٹ اپنے صارف کے ساتھ اس کی مطلوبہ چیز کی بیع کا وعدہ کرے اور جب وہ چیز قبضہ میں آجائے تو صارف سےعقدِ بیع کرکے وہ چیز صارف کو ارسال کرے۔
۷: ویب سائٹ پر اشیاء بیچنے والے کو چاہیے کہ ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کا آپشن  دینے کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ یا ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن دے، کیوں کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں، اگر چہ وقتِ مقررہ کے اندر ادائیگی کردی جائے اورسود دینے کی نوبت نہ آئے۔ 

            اگر ویب سائٹ پرخریدی گئی چیز اس طرح نہیں جیسا کہ اس کی صفات میں بیان کیا گیا تھا تو مشتری کو خیارِ رؤیت (یعنی چیز کو دیکھ کر معیار کے مطابق نہ ہونے یا پسند نہ آنے کی صورت میں واپس کرنے کا اختیار)  حاصل ہوگا، نیز اگر اس شے میں کوئی ایسا  عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھر مشتری کو خیارِ عیب  (عیب کی وجہ سے لوٹانے کا اختیار) حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے ، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔ بائع کو خیارِ رؤیت تو مطلقاً حاصل نہیں ہوگا، البتہ ثمن میں کھوٹ ہوتو اسے تبدیلی کاحق ہوگا، مگر سودے  کو منسوخ کرنے کاحق اسے پھر بھی نہ ہوگا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم."

(کتاب البیوع،ج:5،ص:147،دارالکتب العلمیۃ)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه) إنما اقتصر على البيع ولم يقل إنه يتصرف فيه لتكون اتفاقية، فإن محمدا يجيز الهبة والصدقة به قبل القبض۔۔۔أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه  ورواه أحمد في مسنده وابن حبان".

(کتاب البیوع،باب المرابحۃ والتولیۃ،ج:6،ص:511،دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"شراء ما لم يره جائز كذا في الحاوي. وصورة المسألة: أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا وصفته كذا والدرة التي في كفي هذه وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقبة. وأما إذا قال: بعت منك ما في كمي هذا أو ما في كفي هذه من شيء هل يجوز هذا البيع؟ لم يذكره في المبسوط قال عامة مشايخنا: إطلاق الجواب يدل على جوازه عندنا كذا في المحيط من اشترى شيئا لم يره فله الخيار إذا رآه، إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده سواء رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها كذا في فتح القدير هو خيار يثبت حكما لا بالشرط كذا في الجوهرة النيرةولا يمنع ثبوت الملك في البدلين ولكن يمنع اللزوم كذا في محيط السرخسي ولا يسقط بصريح الإسقاط قبل الرؤية ولا بعدها هكذا في البدائع وله أن يفسخ وإن لم ير عند عامة المشايخ رحمهم الله تعالى وهو الصحيح كذا في الفتاوى الصغرى وإن أجازه قبل الرؤية لم يجز وخياره باق على حاله فإذا رآه إن شاء أخذ وإن شاء رده هكذا في المضمرات.وكما يثبت الخيار في المبيع للمشتري ويثبت للبائع في الثمن إذا كان عينا كذا في فتاوى قاضي خان".

(کتاب البیوع،الباب السابع فی خیار الرؤیۃ،ج:3،ص:58،المطبعۃ الکبرٰی الامیریۃ)

وفيها أيضاّ:

"خيار ‌العيب ‌يثبت ‌من ‌غير ‌شرط كذا في السراج الوهاج وإذا اشترى شيئا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمه قبله والعيب يسير أو فاحش فله الخيار إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء رده كذا في شرح الطحاوي وهذا إذا لم يتمكن من إزالته بلا مشقة، فإن تمكن فلا كإحرام الجارية فإنه بسبيل من تحليلها كذا في فتح القدير".

(کتاب البیوع،الباب الثامن فی خیار العیب،ج:3،ص:66،المطبعۃ الکبرٰی الامیریۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں