بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراپ شپنگ کا کاروبار کرنے کا شرعی حکم


سوال

 (dropshipping)ڈراپ شپنگ کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟

جواب

ڈراپ شپنگ کے کام کا عام طور  پر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ فروخت کنندہ اپنی مصنوعات (sproduct) کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیاء  کو دیکھ کراپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکےاس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے، رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے، یعنی جب فروخت شدہ سامان مقرر ہ جگہ پر پہنچا دیا جاتا ہے تو خریدار رقم ادا کرتا ہے، اور بعض دفعہ  ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے، فروخت کنندہ خریدار کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے، اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے،  فروخت شدہ سامان کی ادائیگی بعض اوقات کسی کوریئر سروس کے ذریعے کی جاتی ہے اوربعض اوقات کمپنی خود یہ کام کرتی ہے، نیز یہ بھی ضروری  نہیں کہ فروخت کیا جانے والا سامان فروخت کنندہ کی ملکیت میں بیچنے سے پہلے موجود ہو، بلکہ وہ  آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور خریدار کے پتے  پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔

لہذا ڈراپشِپِنگ کا کاروبار مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

1- انٹرنیٹ پرسونا چاندی یا کرنسی کی خریدوفروخت  ہو تو بیعِ صرف کے احکام کی رعایت لازم ہوگی۔

2- فروخت کیا جانے والا سامان اور اس کی پیمنٹ کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے ہر قسم کی جہالت وابہام ختم ہو جائے۔

3- کوئی فاسد شرط نہ لگائی جائے۔

4۔-صرف تصویر دیکھنے سے خیارِ رؤیت (دیکھنے کے بعد پسند نہ آنے کی صورت میں واپس کرنے کا خیار) ساقط نہ ہوگا، لہذا اگر فروخت شدہ سامان تصویر کے مطابق نہ ہو تو خریدار کو واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔

5- ویب سائٹ پر جان دار کی تصویر نہ لگائی جائے۔

6- اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کرتے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں جب تک وہ چیز خرید کر اس پر قبضہ نہ کریں۔

7- ویب سائٹ پر اشیاء بیچنے والا   ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کا آپشن  دینے کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ  یا    ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن  دے؛ کیوں کہ  کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده.

(ومنها) أن يكون مقدور التسليم عند العقد، فإن كان معجوز التسليم عنده لا ينعقد، وإن كان مملوكا له."

(كتاب البيوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج: 5، ص: 147، ط: دار الكتب العلمية)

فیہ ایضاً:

"(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة، فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع."

(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع، ج: 5، ص: 156، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144408100788

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں