بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درود شریف میں لفظ "صلّٰی" اور صلِّ" کا فرق


سوال

 درود شریف میں لفظ "صلی"  زیر کے ساتھ پڑھا جائے گا یا زبر کے ساتھ؟  میں نے دیکھا ہے کہ علماءِ کرام لفظِ "صلی"، زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں جب کہ کتابوں میں جو درود ابراہیم لکھا ہے اس میں لفظ "صلی" زیر کے ساتھ لکھا ہوا ہے۔  برائے مہربانی وضاحت فرما دیں کہ کس طرح پڑھا جائے؟

جواب

دورد شریف کے مختلف الفاظ اور صیغے احادیث میں  منقول ہیں،  ان  کے پیشِ نظر درود شریف میں "صَلَّیٰ" (لام کے زبر کے ساتھ)  اور  "صَلِّ" (لام کے زیر کے ساتھ) دونوں صیغے مستعمل ہیں، اور دونوں طرح پڑھنا جائز ہے، البتہ سیاق و سباق دیکھ کر صیغہ متعین ہوتاہے۔

"صَلَّیٰ" (لام کے زبر کے ساتھ) فعل ماضی کا صیغہ ہے، اور "صلَّی الله عليه وسلم" دعا کے طور پر استعمال ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر رحمت اور سلامتی نازل کرے، اور  عمومًا ماضی کے صیغے کو بطورِ دعا استعمال کرنے میں ایک نکتہ یہ ملحوظ ہوتاہے  کہ اس دعا کی قبولیت اتنی یقینی ہے کہ  گویا ماضی میں یہ کام ہوگیا، اور رسول اللہ ﷺ پر رحمت و سلامتی کی دعا کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ہے، اس لیے ماضی کے صیغے (صَلَّیٰ)سے دعا بھی درست ہے، اور احادیثِ مبارکہ میں ماضی کے صیغے کے ساتھ بھی ثابت ہے۔

اور "صَلِّ" (لام کے زیر کے ساتھ) فعل امر کا صیغہ ہے، اور اس کے  ساتھ درود کا مطلب یہ ہے اللہ سے  درخواست کی جاتی ہے کہ اے اللہ آپ محمد ﷺ پر رحمت اور سلامتی نازل فرمادیجیے۔

درود ابراہیمی میں  "صَلِّ" ہے، جو فعل امر ہے، اس لیے اس کا لام مکسور لکھا جاتا ہے، اور اسے سب ہی زیر کے ساتھ پڑھتے ہیں، خواہ علماءِ کرام ہوں یا عوام۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200879

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں