بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈرائیور حضرات کا بغیر دعوت کے کھانا کھانا


سوال

میرا پِک اینڈ ڈراپ کا کام ہے، جس کے لیے میں سواریوں کو ہر جگہ لے کے جاتا ہوں مثلاً شادی میں یا گھر کی دعوت میں تو وہ کہتے ہیں ہمارے ساتھ کھانا کھائیں لیکن دعوت تو میری نہیں ہے، تو میرا کھانا کھانا کیسا ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ میں سواریوں کو مایو، مہندی اور بارات میں لے کر جاتا ہوں تو میں تعاون علی الاثم کے زمرے میں تو نہیں آوں گا؟

جواب

واضح رہے کہ شادی کے دعوت کے موقع پر آج کل عام عرف یہ ہےکہ مہمانوں کے ساتھ آنے والےڈرائیوروں کو بھی خوشی سے دعوت کاکھانا کھلایا جاتا ہے،اگرچہ ڈرائیور  حضرات کو دعوت نہیں دی جاتی،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیےدعوت کا کھانا کھانا جائز ہے، ہاں اگر دعوت کرنےوالوں کی طرف سے صراحتاً کوئی ممانعت ہو تو پھر کھانا جائز نہ ہوگا،اور   جس وقت آپ لوگوں کو اجرت پر دوسری جگہ  مایو، مہندی اور بارات وغیرہ میں پہنچاتے ہیں،عین اس وقت اپنے گاڑی میں کسی غیر شرعی کام کی اجازت نہ دے،باقی آپ کے ذمہ کوئی گناہ لازم نہیں آئے گا،نیز  جن لوگ کےبارے میں آپ کوپہلے سے معلوم ہو کہ یہ خلاف شرع کام میں ملوث ہوں گے ،ان کو  اجرت پر  اپنے گاڑی مہیا کرنا جائز نہ ہوگا،اور یہ تعاون علی الاثم کے زمر ے میں ہوگا۔ 

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"وقوله تعالى ‌وتعاونوا ‌على ‌البر ‌والتقوى يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان تعالى لأن البر هو طاعات الله وقوله تعالى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."

(المائدة:(5)آیۃ:3، ج:3 ص:296 ط: دار إحياء التراث العربي)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله : {وتعاونوا على البر والتقوى ولاتعاونوا على الإثم والعدوان} يأمر تعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات، وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى، وينهاهم عن التناصر على الباطل، والتعاون على المآثم والمحارم."

(المائدة:(5)آیۃ:3، ج:2 ص:12 ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"لا يجوز أن يدخل إلى الولائم وغيرها من الدعوات من لم يدع إليها ، فإن في هذا دناءة ومذلة ، ولا يليق ذلك بالمؤمن ، وفي الحديث من رواية ابن عمر مرفوعا " من دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا"  ومن يفعل ذلك يسمى الطفيلي ۔ وعلى هذا فالتطفل حرام عند جمهور الفقهاء ، ما لم يكن غير المدعو تابعا لمدعو ذي قدر يعلم أنه لا يحضر وحده عادة ، فلا يحرم ، لأنه مدعو حكما بدعوة متبوعه."

(دعوة، التطفل على الدعوات، ج:20 ص:335 ط: دارالسلاسل)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506101069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں