بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈرامہ کی نقل کرتے ہوئے بیوی کو طلاق کے الفاظ کہنا


سوال

1۔میرے اور میری بیوی کے درمیان بات ہورہی تھی تو میں نے کہا کہ "میں تمہارے ساتھ ایک ڈرامہ کی نقل کررہا ہوں کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،گھر سے نکل جاؤ ،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،گھر سے نکل جاؤ "اور میں نے یہ الفاظ دو سےزیادہ بار ادا کیے ہیں،اب پتہ نہیں کہ کتنی مرتبہ ادا کیے ہیں،میں ڈرامہ کی نقل کرنے کے موڈ میں تھا اور مجھے پتہ نہیں تھا کہ مذاق میں طلاق ہوتی ہے،پھر میں کمرے میں آیا تو بیوی نے کہا کہ تم نے کیا کہا جبکہ میں اب بھی ڈرامہ کی نقل کرنے کے موڈ میں تھا تومیں نے کہا کہ" اردو میں سمجھ نہیں آیا تو پشتو میں بتاؤں کہ" ہاں ہاں جاؤ جاؤ میں نے تمہیں طلاق دی اب کیا کروگی ، امی کے گھر جاؤگی"،پھر بیوی نے کہا کہ پلیز صحیح بتاؤ تم نے کیا کہا،اب بھی میں ڈرامہ کی نقل کرنے کے موڈ میں تھا،تو میں نے کہاکہ پشتو میں سمجھ نہیں آیا تو انگلش میں بتاؤں" آئی طلاق یو، آئی طلاق یو" پھر بیوی نے کہا کہ مذاق میں بھی طلاق ہوجاتی ہے تم مجھے صحیح بتاؤ کہ تم نے طلاق کے لیے کیا لفظ استعمال کیے تب میں نے کہاکہ" طلاق،طلاق،طلاق"۔

بیو ی نے جو سوال کیا اس کا مقصد یہ تھا کہ شاید میں نے طلاق کے الفاظ ادا نہ کیے ہوں بلکہ کچھ اور الفاظ کہے ہوں،اس لیے بار بار سوال کیااور میں نے پہلی مرتبہ(یعنی میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،گھر  سے نکل جاؤ) کے بعد جتنی مرتبہ بھی طلاق کے الفاظ کہے ہیں ان سے میرا مقصداپنی بیوی کے بار بار پوچھنے کی بناپر اس کو اس بات کی خبر دینا تھا کہ میں نے تمہیں پہلی مرتبہ جو الفاظ کہے ہیں،ان میں طلاق کالفظ ہی استعمال کیا ہے اورکوئی لفظ استعمال نہیں کیا، ان الفاظ سے میرا مقصد اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیااس صورت میں میری بیوی پر طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

2۔میری بیوی کاکہنا ہے کہ مذکورہ واقعہ سے پہلے بھی میں نے اس کو ایک طلاق دی ہے،جب کہ میں نے اس کو کوئی طلاق نہیں دی،میں اس پر قسم کھانے کو تیار ہوں۔

اب سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہوگا؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃًسائل کا بیان صحیح اور درست ہے کہ سائل اپنی بیوی کے ساتھ کسی ڈرامہ کی نقل کررہا تھااور اس پر ثبوت بھی ہے،یعنی کسی ڈرامہ میں کسی شخص نے طلاق کے  مذکورہ الفاظ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،گھر سے نکل جاؤ" بولے تھے  اور سائل اس شخص کی نقل کرتے ہوئے ان الفاظ کو نقل کررہا تھا،اس سے سائل کا مقصد اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں تھا اور پھر اس کےبعدسائل نے جتنی مرتبہ بھی اپنی بیوی کو طلا ق کے الفاظ بولے ہیں،اگر واقعۃًان سے سائل کا مقصد اپنی بیوی کے بار بار پوچھنے پر اس کو اس بات کی خبر دینا تھا کہ اس نےاپنی بیوی کو پہلی مرتبہ جو الفاظ کہے ہیں،ان میں اس نے طلاق کا لفظ استعمال کیا ہے ،کوئی دوسرا لفظ استعمال نہیں کیا ہےاور ان الفاظ سے سائل کا مقصد اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں تھا،تو اس صورت میں سائل کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی،بلکہ دونوں کا نکاح بدستور برقرار ہے۔

البتہ یہ بات واضح رہے کہ مذاق میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے ،لہذا سائل پر لازم ہے کہ آئندہ طلاق کے الفاظ استعمال کرنے سے گریز کرے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ یہ جواب اس صورت میں ہے،جب کہ سائل یعنی شوہر نے واقعۃً ڈرامہ کی نقل کرتے ہوئےمذکورہ الفاظ کہے ہوں،بیوی کو طلاق دینا ہر گز مقصد نہیں تھا،بصورتِ دیگر جواب بھی دوسرا ہوگا۔

2۔اس صورت میں چونکہ فریقین(میاں،بیوی)کے بیانات میں تضاد پایا جارہا ہے،لہذا فریقین کو چاہیے کہ اپنے اس مسئلے کےحل کےلیےقریبی کسی مستند مفتی/عالم دین کے پاس جا کر انہیں اپنا حکم/منصف بنائیں،بعد ازاں حسبِ ضابطہ شرعی وہ جو فیصلہ کریں اس کے مطابق عمل کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"حكى يمين رجل فلما بلغ إلى ذكر الطلاق خطر بباله امرأته إن نوى عند ذكر الطلاق عدم الحكاية واستئناف الطلاق وكان موصولا بحيث يصلح للإيقاع على امرأته يقع لأنه أوقع وإن لم ينو شيئا لا يقع لأنه محمول على الحكاية كذا في الفتاوى الكبرى."

(كتاب الطلاق، الباب الاول، فصل في من يقع طلاقه و في من لا يقع طلاقه، ج:1، ص:353، ط:رشيديه)

البحرالرائق میں ہے:

"لو كرر مسائل الطلاق بحضرة زوجته ويقول أنت طالق ولا ينوي لا تطلق، وفي متعلم يكتب ناقلا من كتاب رجل قال ثم يقف ويكتب: امرأتي طالق وكلما كتب قرن الكتابة باللفظ بقصد الحكاية لا يقع عليه."

(کتاب الطلاق، باب ألفاظ الطلاق، ج:3، ص:278، ط:دار الكتاب الإسلامي)

رد المحتار ہے:

"وإذا قال: أنت طالق ثم قيل له ‌ما ‌قلت؟ فقال: قد طلقتها أو قلت هي طالق فهي طالق واحدة لأنه جواب، كذا في كافي الحاكم."

(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ج:3، ص:293، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد ولا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة."

(کتاب أدب القاضی، ج:3، ص:397، ط:رشیدیه)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں اس مسئلے کے متعلق مذکور ہے:

"اگر زید نے اپنی زوجہ کوایک طلاق دی ہےیعنی ایک دفعہ لفظِ طلاق کہاہے،تین دفعہ نہیں کہااور پھر جودریافت کرنے پر لفظِ طلاق کہا ہےتو اگراس سے اس کی غرض ونیت اسی طلاقِ سابق کی خبر دینا تھا،تو اس صورت میں زید اس سےعدت کے اندربلا نکاح کے رجوع کرسکتا ہےاور بعد عدت کے نکاح کرسکتا ہے،حلالہ کی ضرورت نہیں ہے۔"

(ج:9، ص:220، ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100887

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں