بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

درختوں پر پھل ظاہر ہونے سے پہلے باغ فروخت کرنے کا حکم


سوال

باغات کو پھل تیار ہونے سے پہلے فروخت کرنا کیسا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ باغ کا پھل آنے سے پہلے اسے بیچنا از روئے شرع جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ معدوم کی بیع ہے، البتہ اگر باغ میں پھل ظاہر ہوجائے تو پکنے  سے پہلے بشرط القطع (یعنی عقد ہونے کے فورًا بعد کاٹنے کی شرط کے ساتھ) بھی جائز ہے، اور یہ بھی جائز ہے کہ کسی قسم کی کوئی شرط نہ لگائی جائے (یعنی کاٹنے اور نہ کاٹنے کا ذکر نہ ہو)۔

اس کے بعد اگر بائع (بیچنے والا) اپنی رضامندی سے پھل قابلِ انتفاع ہونے (یعنی پکنے) تک درخت پر چھوڑ دے تو یہ بھی جائز ہے، لیکن ایسی شرط عقد میں لگانا جائز نہیں ہے، لہٰذا فروخت کنندہ اگر پھل پکنے سے پہلے اتارنے کا کہے تو خریدار پھل اتارنے کا پابند ہوگا، عرف کی بنیاد پر فروخت کنندہ کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن باع ثمرةً بارزةً) أما قبل الظهور فلايصح اتفاقًا. (ظهر صلاحها أو لا صح) في الأصح.

(قوله: أما قبل الظهور) أشار إلى أن البروز بمعنى الظهور، والمراد به انفراد الزهر عنها وانعقادها ثمرة وإن صغرت.

(قوله: ظهر صلاحها أو لا) قال: في الفتح لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح، بشرط الترك ولا في جوازه قبل بدو الصلاح بشرط القطع فيما ينتفع به، ولا في الجواز بعد بدو الصلاح، لكن بدو الصلاح عندنا أن تؤمن العاهة والفساد،

(كتاب البيوع، مطلب فى بيع الثمر والزرع، ج:4، ص:554/555، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144204200933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں