بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

درختوں کی حفاظت کرنے والے کے لیے درختوں کی قیمت میں سے آدھی قیمت بطوراجرت طے کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درجِ ذیل مسئلے کے بارے میں:

ایک آدمی نے اپنی زمین میں درخت لگا کر دوسرے آدمی کو کہاکہ آپ اس کا خیال رکھیں اور جب یہ درخت بڑےہوجائیں، توپھرہم اسکوبیچ کر پیسوں میں سے نصف آپ کے ہوں گےاورنصف میرے،  اب ان درختوں کے ساتھ یعنی جو درخت اس نے لگائے تھے اور درخت بھی اگ کربڑے ہوگئے ہیں، اب یہ دوسرا آدمی کہتا ہے میرا حق اس دوسرے قسم کے درخت جو خود نکل کر بڑے ہوگئے ہیں ان میں بھی ہے، حالانکہ بعض درخت کھیت سے باہر کناروں پر بھی ہیں، تو کیا شریعت کی رُو سے اس دوسرے آدمی کاحق دوسری قسم کے درختوں میں بھی بنتا ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں درختوں کے مالک کادرختوں کی حفاظت کرنے والے کو اپنے درختوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے ان کے ساتھ معاملہ اس طور پر کرنا کہ مذکورہ درخت فروخت ہونے کے بعد اس  کی قیمت دونوں (یعنی مالک اور دیکھ بھال کرنے والے) میں آدھا آدھا تقسیم کریں گے، از رُوئے شرع مذکورہ معاملہ اجارۂ فاسدہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، لہذا دونوں کے ذمہ لازم ہے کہ اس طرح کا معاملہ فوراً ختم کریں ، البتہ اگر اس طرح کا معاملہ کر لیا گیاہے تو وہ درخت اس کے مالک کی ملکیت میں شمار ہوں گے، اوران کے ذمہ دیکھ بھال کرنے والے کو دیکھ بھالی کرنے  کی جو عام طور پر اجرت ہوتی ہے اس کا دینا واجب ہوگا، نیز متعیّن کردہ درختوں کے علاوہ جتنے بھی درخت ہیں، وہ بھی مالک ہی کے ہیں۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية) میں ہے:

"دَفَعَ بَقَرَةً إلَى رَجُلٍ عَلَى أَنْ يَعْلِفَهَا وَمَا يَكُونُ مِنْ اللَّبَنِ وَالسَّمْنِ بَيْنَهُمَا أَنْصَافًا فَالْإِجَارَةُ فَاسِدَةٌ، وَعَلَى صَاحِبِ الْبَقَرَةِ لِلرَّجُلِ أَجْرُ قِيَامِهِ وَقِيمَةُ عَلَفِهِ إنْ عَلَفَهَا مِنْ عَلَفٍ هُوَ مِلْكُهُ لَا مَا سَرَحَهَا فِي الْمَرْعَى، وَيَرُدُّ كُلَّ اللَّبَنِ إنْ كَانَ قَائِمًا."

(كتاب الاجارة، الباب الخامس عشر في بيان مايجوز من الاجارة، الفصل الثالث فى قفيز الطحان وماهو فى معناه، ج:4، ص:445، ط:مكتبه رشيديه)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"(هي) لغة مفاعلة من السقي وشرعا (دفع الشجر إلى من يصلحه بجزء من ثمره وهي كالمزارعة) في أنها باطلة عند أبي حنيفة خلافا لهما وأن الفتوى على صحتها."

(کتاب المساقات، ج:2، ص:328، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100417

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں