ایک آدمی نے کسی کو دراھم موجودہ ریٹ سے زیادہ قیمت پر ایک سال مدت ادھار پرفروخت کیے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ ادھر تو دونوں طرف سے روپیہ ہے، کیا یہ سود ہے کہ نہیں؟
بصورتِ مسئولہ مذکورہ معاملہ (یعنی دراہم کو ایک سال ادھار پر فروخت کرنے) میں چوں کہ تقابض فی المجلس ( یعنی اسی مجلس میں قبضہ) نہیں پایا گیا، لہذا یہ معاملہ ادھار اور سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔
البحرالرائق میں ہے:
هو بَيْعُ بَعْضِ الْأَثْمَانِ بِبَعْضٍ كَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ إذَا بِيعَ أَحَدُهُمَا بِالْآخَرِ أَيْ بِيعَ ما من جِنْسِ الْأَثْمَانِ بَعْضُهَا بِبَعْضٍفَلَوْ تَجَانَسَا شُرِطَ التَّمَاثُلِ وَالتَّقَابُضِ.
( وَإِلَّا شُرِطَ التَّقَابُضُ ) أَيْ وَإِنْ لم يَتَجَانَسَا يُشْتَرَطُ التَّقَابُضُ قبل الِافْتِرَاقِ دُونَ التَّمَاثُلِ لِمَا رَوَيْنَاهُ ...الثَّالِثُ أَنْ لَا يَكُونَ بَدَلُ الصَّرْفِ مُؤَجَّلًا.
(باب الصرف ، ج:6، ص:324، ط:مكتبه رشيديه)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144201201174
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن