بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

دوران جنگ مسلمانوں کا اپنے کافر دشمن کی آن لائن معلومات حاصل کرنے کا حکم


سوال

 کیا دوران جنگ مسلم اپنے دشمن کی چوری کر سکتے ہیں؟ یعنی کیا وہ بھی مال غنیمت ہوگا؟ اور یہ کہ اگر جنگ موجودہ دور میں لگ جائے، جس میں آن لائن بہت کچھ ہوتا ہے،تو کیا آن لائن دشمن کی معلومات یا وسائل چوری کیے جا سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے  کہ  شرعی قواعد و ضوابط کے مطابق اگر مسلمانوں کی  کفار سے  جنگ ہو تو  دورانِ  جنگ مسلمان کے ہاتھ اپنے ان کافر دشمنوں کی جو بھی چيز آ جائے اس کے لینے کی اجازت ہوتی ہے، اور  اسے چوری نہیں کہا جاتا، بلکہ وہ  مالِ غنیمت شمار ہوتی  ہے، اور کافروں کی شان و شوکت کم کرنے اور ان کی طاقت اور قوت کو توڑنے کے لیے ہر جائز حربہ استعمال کیا جا سکتا ہے، لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر موجودہ دور میں مكمل شرعی اصول و ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی غیر مسلموں کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو آن لائن وه حساس معلومات اور وسائل جس  کی وجہ  سے وه مسلمانوں كو نقصان  پہنچائیں ان كے حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔

البناية شرح الهداية  میں ہے :

"وهي جمع غنيمة، والغنيمة اسم لمال مأخوذ من الكفرة بالقهر والغلبة والحرب قائمة"

(‌‌‌‌كتاب السير، باب الغنائم وقسمتها، ج:7،ص:130،طدار الكتب العلمية - بيروت، لبنان)

النهاية في شرح الهداية میں ہے :

""الغنيمة" عن أبي عبيد: ما نيل من أهل الشرك عنوة والحرب قائمة".

(‌‌كتاب الجهاد، باب الغنائم، ج:12،ص:1، ط:جامعة أم القرى)

الموسوعۃ الفقھیہمیں ہے :

"سرقة مال الحربي: اتفق الفقهاء على أن مال الحربي هدر بالنسبة إلى المسلم والذمي، ولهذا لا يقام الحد على أي منهما إذا سرق من هذا المال."

(سرقة،ج:24 ،ص:307 ،ط:دارالسلاسل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144507102305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں